• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

گھریلو تشدد تحفظ بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کا فیصلہ، سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں

شائع July 6, 2021
ٹوئٹر صارفین نے حکومت کے اقدام پر اعتراض کیا
—فوٹو: ڈان نیوز
ٹوئٹر صارفین نے حکومت کے اقدام پر اعتراض کیا —فوٹو: ڈان نیوز

حکومت کی جانب سے گھریلو تشدد تحفظ بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کے فیصلے کی خبر سامنے آتے ہی ٹوئٹر پر صارفین نے شدید تنقید کی ہے۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو 5 جولائی 2021 کو لکھے گئے خط میں نشاندہی کی کہ ابتدائی طور پر رواں سال اپریل میں قومی اسمبلی سے منظور شدہ بل سینیٹ کو بھیج دیا گیا تھا جہاں ترامیم کی تجویز کی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: گھریلو تشدد کے بل کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجنے کی سفارش

خط میں مزید کہا گیا کہ ’بل میں کی گئیں متعدد تعریفوں اور دیگر مواد کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے‘۔

بل میں گھریلو تشدد کو واضح کیا گیا ہے کہ ‘وہ تمام اقسام جسمانی، جذبانی، نفسیاتی، جنسی اور معاشی سمیت تمام اقسام کی ہراسانی، خواتین، بچوں، معذور افراد یا گھریلو رشتے میں منسلک افراد کے خلاف غصہ، جسمانی یا متاثرہ شخص کو نفسیاتی نقصان پہنچانا شامل ہے’۔

ٹوئٹر پر اس بل کے حوالے سے کئی افراد نے حکومت کی تعریف کی تھی۔

وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے یہ بل ابتدائی طور پر 19 اپریل کو پیش کیا تھا جو صرف اسلام آباد تک محدود تھا جبکہ سندھ، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں اس حوالے سے الگ قوانین موجود ہیں۔

بعد ازاں حکومت کی جانب سے مذکورہ بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کے فیصلے کی خبر پر ٹوئٹر میں صارفین کی بڑی تعداد نے ناراضی کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا میں گھریلو تشدد کو جرم قرار دینے کے لیے قانون منظور

متعدد افراد نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں کوئی خاتون موجود نہیں ہیں جبکہ آئین کے آرٹیکل 228 میں اس کی گنجائش دی گئی ہے۔

بل کی تیاری کے تمام مراحل میں بھی خواتین کی نمائندگی محدود رہی اور صرف شیریں مزاریں تھیں جنہوں نے بل پیش کیا تھا۔

کئی افراد کا ماننا ہے کہ یہ بل مردوں کو نشانہ بنانے کے لیے کافی ہے۔

چند افراد نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ بل ‘پاکستان کی ثقافت کے خلاف ہے’ اور انٹرنیٹ میں اس معاملے کو اٹھانے کا مطالبہ کیا۔

دوسری جانب متعدد صارفین نے کہا کہ قانون میں مزید کسی ترمیم سے یہ کمزور ہوجائے گا۔

ٹوئٹر صارفین جاننا چاہتے ہیں کہ ابتدائی طور پر پیش کیے گئے بل میں کیا چیز قابل اعتراض تھی۔

اداکار عثمان خالد بٹ نے بھی اس خبر پر مایوسی کا اظہار کیا۔

ماڈل ایمان سلیمان نے بھی اس موضوع پر بہت کچھ تحریر کیا۔

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

انہوں نے انسٹاگرام میں لو مائی کنٹری کے ہیش ٹیگ کے ساتھ لکھا کہ ‘تصور کریں کہ ایک ملک جو اپنی عورتوں سے بہت زیادہ نفرت کرتا ہے جبکہ اس کو تحفظ دینے والا ایک بل صرف مسترد کردینے کے لیے پیش کر دیا جائے’۔

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

اداکارہ میرا سیٹھی کا ماننا ہے کہ خواتین کو تحفظ دینا حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

عبدالحمید Jul 06, 2021 06:15pm
پتا نہیں کہ پورا بل سامنے آئے اسے پڑھا جائے، اس کے مقاصد کو سمجھا جائے، اس کے لاگو ہونے کے طریقہ کار کو دیکھا جائے، جو حوالے اس میں اسلامی تعلیمات سے لیے گئے ہیں انکو دیکھا اور سمجھا جائے اور محقق علماء کی رائے جان کے پھر اپنی رائے دی جا سکتی ہے۔ المورد انسٹی ٹیوٹ کی کسی خاتون محقق کو اور ڈاکٹر فرحت ہاشمی کو اس کونسل کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024