حکومت کی یکطرفہ طور پر انتخابی اصلاحات نہ کرنے کی یقین دہانی
اسلام آباد: اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مجوزہ انتخابی اصلاحات پر شدید تنقید کا سامنا کرنے کے بعد حکومت نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ یکطرفہ طور انتخابی عمل سے متعلق قوانین میں ترامیم نہیں کرے گی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے انتخابی اصلاحات، بشمول سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور آئندہ عام انتخابات میں شفافیت یقینی بنانے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کے حوالے سے بات چیت کے لیے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا سے ملاقات کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل نے یقین دلایا کہ حکومت، انتخابی اصلاحات پر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے گی اور متعلقہ قوانین میں ترامیم کو اس عمل کے بعد حتمی شکل دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کا حکومت سے انتخابی ترمیمیِ بل پر اظہار تشویش
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کمیشن، پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون سازی کی حمایت اور اس پر عملدرآمد کرے گا جو شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات یقینی بنائے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کی حمایت کرتا ہے لیکن اس بات پر زور دیا کہ یہ کام ذمہ دارانہ طور پر ہونا چاہیے، ساتھ ہی خبردار کیا کہ جلد بازی میں ٹیکنالوجی متعارف کروانے کا نتیجہ غیر پیداواری نکل سکتا ہے۔
الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ طریقہ کار پر کام کیا جانا چاہیے تاکہ کوئی سوال نہ اٹھ سکے اور انتخابات کے وقت کسی تنازع کی گنجائش نہ پیدا ہو سکے۔
مزید پڑھیں: انتخابی ترمیمی بل 2020 کی بعض شقیں آئین سے متصادم ہیں، ای سی پی
اٹارنی جنرل نے ایک مرتبہ پھر یقین دہانی کروائی کے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول الیکشن کمیشن کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینز، سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے حق اور الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم سے متعلق معاملات میں اعتماد میں لیا جائے گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ الیکشن کمیشن نے باضابطہ طور پر متنازع الیکشن ایکٹ (ترامیم) بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا، مذکورہ بل اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود قومی اسمبلی سے منظور کرا لیا گیا تھا۔
کمیشن نے وزارت پارلیمانی امور اور وزارت قانون کو ارسال کردہ خطوط میں 72 مجوزہ ترامیم میں سے 45 پر اعتراضات اٹھائے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کا انتخابی اصلاحات کمیٹی کی تشکیل کیلئے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط
حکومت کو ارسال کردہ دستاویز میں اعتراضات کی تفصیل بتائی گئی جس میں کہا گیا کہ 15 ترامیم آئین سے متصادم ہیں اور 5 قانون سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
کمشین نے 17 ترامیم پر انتظامی بنیادوں پر اعتراضات کیے تھے جبکہ 27 کی حمایت کی تھی اور دیگر 8 ترامیم میں تبدیلی تجویز کی تھی۔
اسی طرح کا ردِعمل اپوزیشن کی جانب سے بھی سامنے آیا تھا جس میں حکومت پر ٹیکنالوجی کے ذریعے آئندہ انتخابات 'چوری' کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں سول سوسائٹی کی بھی متعدد تنظیموں نے آئندہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کا استعمال لازمی قرار دینے کے لیے صدارتی آرڈیننس کے جلد بازی میں استعمال پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: انتخابی اصلاحات کے ذریعے پی ٹی آئی اگلا الیکشن چوری کرنا چاہتی ہے، احسن اقبال
تاہم اب چیزیں تبدیل ہوگئی ہیں اور مجوزہ ترامیم پر بحث کے لیے جلد ایک شراکت داری پر مبنی عمل شروع ہونے والا ہے اور قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی تحریک منظور کی جاچکی ہے۔
اپوزیشن میں موجود ذرائع نے بتایا کہ کمیٹی کے لیے نامزد اراکین کے نام اسپیکر قومی اسمبلی کو ارسال کیے جاچکے ہیں۔
امکان ہے کہ انتخابی اصلاحات سے متعلق کمیٹی عیدالاضحیٰ کے بعد اپنا کام شروع کرے گی۔