پاکستان میں کاروباری اعتماد میں 'ریکارڈ بہتری' آئی ہے، سروے
غیر ملکی سرکایہ کار چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کے منعقدہ سروے کے مطابق پاکستان میں حالیہ مہینوں میں مجموعی طور پر کاروباری اعتماد میں 'ریکارڈ بہتری' آئی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق او آئی سی سی آئی کی جانب سے مئی سے جولائی کے دوران کاروباری اعتماد سے متعلق سروے (بی سی آئی) کیا گیا جس میں ظاہر ہوا ہے کہ مجموعی طور پر کاروباری اعتماد کا اسکور (بی سی ایس) 9 فیصد رہا، جو مئی 2020 میں ہونے والے سروے میں منفی 50 فیصد تھا۔
وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے ایک کروڑ 41 لاکھ فلورز کے ساتھ سروے کے نتائج شئیر کیے۔
انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ 'معیشت کی میدان سے ایک اور اچھی خبر ہے، کاروباری اعتماد متاثر کن حد تک بہتر ہوا ہے خاص طور پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کا'۔
او آئی سی سی آئی کی جانب سے وقتاً فوقتاً کیے جانے والے بی سی آئی سروے میں صف اول کے کاروباری اسٹیک ہولڈرز سے اس ماحول اور سہولیات سے متعلق ردعمل لیا جاتا ہے جو ان کی کاروباری سرگرمیوں کو متاثر کرتا ہو۔
اس سے قبل بی سی آئی کا مثبت نتیجہ اپریل 2018 میں سامنے آیا تھا۔
مزید پڑھیں: سرمایہ کار ملکی سلامتی کی صورتحال سے مطمئن ہیں، سروے
سروے ملک کے 9 شہروں میں کاروباری افراد سے روبرو کیا گیا، یہ ملک کی جی ڈی پی کے 80 فیصد کو کور کرتا ہے جس میں زیادہ اہمیت کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی اور فیصل آباد کے اہم کاروباری سینٹرز کو دی جاتی ہے۔
سروے کے نمونوں میں مینوفیکچرنگ کے شعبے 40 فیصد، سروس شعبے سے 35 فیصد جبکہ ہول سیلرز اور ریٹیلرز سے 25 فیصد جواب کنندگان شامل تھے۔
کاروباری برادری کا تینوں شعبہ جات میں اعتماد بحال ہوا ہے، جس میں پہلے دو میں ہر ایک میں 65 فیصد پوائنٹس اضافہ ریکارڈ کیا گیا، مینوفیکچرنگ میں منفی 48 سے مثبت 17 فیصد، سروسز میں منفی 59 سے مثبت 6 فیصد جبکہ ریٹیل اور ہول سیل میں 44 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے جو کہ منفی 44 سے صفر فیصد پر آپہنچا ہے۔
جیسے ہی لاک ڈاؤن کی پابندیاں ختم کی گئیں، مینوفیکچرنگ شعبے کے متعدد خدشات ختم ہوگئے اور شعبہ اپنی 100 فیصد پیداواری صلاحیت پر کام کرنے لگا۔
یہ بھی پڑھیں: غیر ملکی سرمایہ کاروں کا سیکیورٹی صورتحال پر اطمینان کا اظہار، سروے
ریٹیلر اور ہول سیلرز کورونا پابندیوں سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے کیونکہ ان کے کاروباری گھنٹے کم کر دیے گئے تھے۔
اس طبقے کا خیال ہے کہ آئندہ چھ ماہ میں خرید و فروخت اور منافع میں بہتری آئی گی۔
تازہ ترین بی سی ایس کے پیچھے جو اہم محرک قوت سامنے آئی وہ یہ تھی کہ جواب کنندگان پرامید ہیں کہ آئندہ چھ ماہ میں کاروبار میں اضافہ ہوگا جس کی وجوہات میں ان کے متعلقہ شہروں کے کاروباری حالات 21 فیصد، صنعتی کاروبار کی حالت 19 فیصد، ذاتی کاروبار کی صورتحال 20 فیصد، متوقع فروخت کے حجم میں اضافہ 20 فیصد، منافع میں اضافہ 22 فیصد اور سرمائے کی واپسی میں اضافہ 19 فیصد شامل ہے۔
سروے میں شامل او آئی سی سی آئی اراکین کے ردعمل میں 'تیز تبدیلی' ریکارڈ کی گئی، ردعمل میں 108 فیصد پوائنٹس بہتری آئی اور اعتماد کی شرح منفی 74 فیصد سے مثبت 34 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔
مزید پڑھیں: کاروباری اعتماد میں مزید کمی واقع ہوئی ہے، سروے
بی سی ایس کی بہتری پر او آئی سی سی آئی کے صدر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ کاروبار میں غیر ملکیوں سمیت سب کا اس قدر اعتماد بحال ہونا 'ڈرامائی تبدیلی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ کئی معاشی چیلنجز جیسا کہ بلند شرح تبادلہ اور افراط زر کے اثر کو بینک کے کم شرح سود نے کم کردیا، تازہ ترین بی سی آئی ردعمل کاروباری برادری کے آگے بڑھنے کی امید کی عکاسی کرتا ہے جو کہ سابقہ سروے میں ظاہر کی گئی مایوسی کے برعکس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس امید اور جذبات میں تبدیلی کا اہم محرک کاروباری برادری کا مستقبل خاص طور پر اگلے چھ ماہ کے بارے میں مثبت تاثر ہے۔
رواں مالی سال کا بجٹ کاروباری برادری کے لیے مثبت ثابت ہوا ہے کیونکہ بجٹ کے اعلان کے بعد بی سی آئی اسکور تیزی سے بہتر ہوا ہے اور جواب دہندگان نئی پالیسیوں کو زیادہ شفاف، مستقل اور متوقع سمجھ رہے ہیں
یہ بھی پڑھیں: ملک سے 'عارضی سرمایہ کاری' کا اخراج ایک ارب 30 کروڑ ڈالر تک جا پہنچا
او آئی سی سی آئی کے سی ای او محمد عبدالعلیم کے مطابق سروے میں جواب دہندگان کی جانب سے کاروباری ترقی کے لیے تین بڑے خطرات کی نشاندہی کی گئی جس میں کرپشن (67 فیصد)، توانائی کے غیر مستحکم اخراجات (66 فیصد) اور کرنسی کی قدر میں کمی (60 فیصد) شامل ہے۔
سروے کے جواب دہندگان نے امید ظاہر کی کہ آئندہ چھ ماہ میں کاروباری سرگرمیوں میں 25 فیصد اضافہ متوقع ہے، 39 فیصد نئی سرمایہ کاری کے منصوبہ بندی کر رہے ہیں جبکہ 12 فیصد ان کے متعلقہ کاروبار میں ملازمتوں میں اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
35 ممالک میں او آئی سی سی آئی کے تقریباً 200 اراکین ہیں جو معیشت کے 14 شعبوں میں موجود ہیں، وہ ہر سال پاکستان کی کُل ٹیکس آمدنی کا ایک تہائی سے زائد حصہ دیتے ہیں۔