خواتین نے چاہے جو لباس پہنا ہو، مرد اپنی نظروں کا حساب دے گا، حمزہ علی عباسی
کچھ عرصے سے شوبز سے دور رہنے والے اداکار حمزہ علی عباسی نے کہا ہے کہ خواتین چاہے جیسا بھی لباس پہنیں، وہ اپنے اعمال جب کہ مرد اپنی نظروں اور اعمال کا حساب دیں گے۔
’نیوز 23‘ کو دیے گئے انٹرویو میں حمزہ علی عباسی نے پاکستانی معاشرے میں مذہبی تعلیمات سمیت دیگر سماجی مسائل پر بھی بات کی اور ساتھ ہی اپنی جلد شائع ہونے والی کتاب سے متعلق بھی مداحوں کو بتایا۔
انٹرویو کے دوران حمزہ علی عباسی نے بتایا کہ جلد ہی ان کی کتاب پڑھنے والوں کے سامنے آئے گی، جس میں لوگوں کو ان تمام سوالوں کے جوابات مل جائیں گے جو وہ ان سے کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ان کی کتاب بمشکل 100 صفحات پر مشتمل ہوگی اور وہ اسے کتاب نہیں بلکہ ایک دستاویز کا نام دیتے ہیں، جس میں صرف ان سوالوں کے جوابات ہوں گے جو ان سے پوچھے جاتے ہیں کہ انہوں نے کیوں مذہبی راہ اختیار کی اور ان کی زندگی میں ایسے کون سے واقعات آئے جن سے تبدیلی ممکن ہوئی؟
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں کتاب لکھنے میں دوسرے لکھاری کی مدد حاصل ہے۔
حمزہ علی عباسی نے مرد و خواتین کے لباس اور معاشرے میں پھیلنے والی بے راہ روی کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہے، ہر کسی کو اپنی نیتوں کا جواب دینا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خواتین جیسا بھی لباس پہنیں، ان کی مرضی ہے مگر وہ اس سے متعلق خود ہی جوابدہ ہیں، ان سے ان کے اعمال، لباس اور طرز زندگی سے متعلق پوچھا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین بہت مختصر لباس پہنیں گی تو اس کا مردوں پر اثر ہوگا، وزیر اعظم
حمزہ علی عباسی نے کہا کہ اگر خواتین بولڈ لباس پہننے کے حوالےسے کہیں گی کہ معاشرہ ہی ایسا تھا، جس وجہ سے سے انہوں نے مختصر لباس پہنا تو ان کا جواب قابل قبول نہیں ہوگا، کیوں کہ ہر کسی نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔
انہوں نے خصوصی طور پر مرد حضرات کو یاد دلایا کہ وہ اپنے اعمال ٹھیک کرلیں، ان سے ان کی نظروں اور حیا سے متعلق پوچھا جائے گا۔
حمزہ علی عباسی نے کہا کہ ہر مرد کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہوگا اور ان کا بھی یہ جواب قابل قبول نہیں ہوگا کہ معاشرے کی وجہ سے وہ بے راہ روی کا شکار ہوئے۔
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مرد حضرات سے زیادہ سوالات ہوں گے،کیوں کہ وہی اس وقت بولڈ چیزوں کے استعمال کے سب سے بڑے صارف ہیں، وہی پیسوں سے چیزیں خریدتے ہیں اور پھر بعض خواتین کو ہراساں بھی کرتے ہیں۔
خواتین کے لباس پر وزیر اعظم کے بیان سے متعلق انہوں نے واضح کیا کہ ان کے خیال سے عمران خان کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔
حمزہ علی عباسی کے مطابق کسی حد تک کی وزیر اعظم کی بات ٹھیک تھی، کیوں کہ عمران خان کا اشارہ مغربی ممالک میں عریانیت کی جانب تھا۔
ان کے مطابق وزیر اعظم نے خواتین کے مختصر لباس کی بات اس لیے کی، کیوں کہ ہمارے ملک میں بولڈ لباس کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور ہمارے ہاں قحبہ خانے یا ڈانس کلب بھی نہیں اور نہ ہی ایسی چیزوں کو ہمارا معاشرہ قبول کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: خاتون نے جیسا بھی لباس پہنا ہو، ریپ کرنے والا ہی ذمہ دار ہوتا ہے، وزیراعظم
حمزہ علی عباسی نے کہا کہ مغربی ممالک میں تو لوگ اپنی فرسٹریشن نکالنے کے لیے ڈانس کلبز کا رخ کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں ایسی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی فرسٹریشن خواتین و بچوں پر نکالتے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ وہ ڈانس کلب یا قحبہ خانوں کی حمایت نہیں کررہے اور نہ ہی خواتین کے مختصر لباس پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ وہ عمران خان کی جانب سے دیے گئے بیان کی اپنے نظریے سے وضاحت کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے رواں برس جون میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ خواتین اگر مختصر لباس پہنیں گی تو اس کا اثر مرد حضرات پر ہوگا۔
وزیر اعظم کے مذکورہ بیان پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا اور بعد ازاں جولائی میں انہوں نے ایک اور امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ خواتین کی مرضی ہے وہ جیسا لباس پہنیں مگر غلط کام کرنے والا مرد ہی مجرم ہوگا۔