• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

نئی مجوزہ میڈیا اتھارٹی کے خلاف احتجاج: صحافیوں سے اپوزیشن رہنماؤں کا اظہار یکجہتی

شائع September 13, 2021 اپ ڈیٹ September 14, 2021
تاحال جاری صحافیوں کے دھرنے سے اپوزیشن رہنماؤں نے بھی ملاقاتیں کی ہیں—فائل فوٹو:وائٹ اسٹار
تاحال جاری صحافیوں کے دھرنے سے اپوزیشن رہنماؤں نے بھی ملاقاتیں کی ہیں—فائل فوٹو:وائٹ اسٹار

اسلام آباد: پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام سے متعلق متنازع قانون کے خلاف پارلیمنٹ کے سامنے صحافیوں کا احتجاج تاحال جاری ہے جبکہ دھرنے کے قائدین کی جانب سے آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب کے دوران بھی احتجاج کے اعلان پر سیکیورٹی کے انتظامات سخت کردیے گئے ہیں۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں ملک بھر سے صحافی تنظیموں کے عہدیداروں اور کارکنوں نے میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے خلاف ریلی نکالی اور پارلیمنٹ کے سامنے پہنچ کر دھرنا دیا تھا۔

مزید پڑھیں: میڈیا اتھارٹی بل کی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھرپور مزاحمت کی جائے گی، سینیٹر عرفان صدیقی

یاد رہے کہ حکومت نے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نام سے نیا قانون متعارف کرنے کا اعلان کیا تھا، جس میں میڈیا اداروں اور صحافیوں کے حوالے سے سخت قوانین تجویز کیے گئے ہیں۔

تاحال جاری صحافیوں کے دھرنے سے اپوزیشن رہنماؤں نے بھی ملاقاتیں کی ہیں، اس دوران پولیس پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر تعینات ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی جانب سے بھی سراپا احتجاج صحافیوں سے ملاقات متوقع ہے اور صحافی حامد میر دھرنے کے مقام سے لائیو ٹاک شو کریں گے۔

مزید پڑھیں: نئی مجوزہ میڈیا اتھارٹی کے تحت چینلز پر 25 کروڑ روپے تک جرمانہ ہوسکے گا، فواد چوہدری

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی سربراہی میں احتجاج کی کال دی گئی ہے۔

دوسری جانب پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن نے فیصلہ کیا کہ رپورٹر پارلیمنٹ میں صدراتی خطاب کا بائیکاٹ کریں گے۔

کالے قانون کو دفن کرنے تک صحافیوں کے ساتھ ہیں، شہباز شریف

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں کے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم پارلیمان میں بھرپور احتجاج کیا، بینر اٹھائے، نعرے لگائے اور واک آؤٹ کرکے واپس آپ کےپاس آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس یہ یقین دلانے کے لیے آئے ہیں کہ فرداً فرداً اور اجتماعی طور یقین دلانا چاہتے ہیں کہ جب تک اس کالے قانون کو دفن نہیں کیا جاتا، ہم اس وقت تک آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اپنی پارٹی اور نواز شریف کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ ہم ہر گھڑی میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔

آزادی صحافت کے معاملے پر ایک پیج پر ہیں، بلاول بھٹو زرداری

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ صحافیوں سے اظہار یک جہتی کے لیے قائد حزب اختلاف نے ہم سب کو اکٹھا کیا اور ہم یہاں آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آزادی صحافت کے معاملے، حق روزگار پر ہم ایک پیج پر ہیں، جو بھی ہم سے ہوسکتا ہے، پارلیمان میں پرزور مخالفت کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ قانون پارلیمان سے کسی طرح منظور ہوجاتا ہے تو عدالت سے لے کر سڑکوں پر پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان کی اپوزیشن کے رہنما آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس کٹھ پتلی کو جلد پتہ چلے گا کہ پاکستان کے بہادر صحافی کو بند کرنا اتنا آسان نہیں ہے، جو ضیا کا کالا قانون اور پرویز مشرف کا کالا نہیں کرسکا وہ کسی کٹھ پتلی کا قانون بھی نہیں کرسکے گا۔

میڈیا اتھارٹی آزادی صحافت، آزاد عدلیہ پر حملہ ہے، بلاول

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے صحافیوں کے احتجاج کیمپ میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں کہا کہ اتھارٹی کے قیام کا قانون ناصرف آزادی صحافت بلکہ جمہوری اقدار کے خلاف کالا قانون ہے۔

انہوں نے مذکورہ قانون کو آزاد عدلیہ پر ’حملہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صحافیوں سے ان کی اپیل کا حق بھی چھینا جارہا ہے کیونکہ یہ ایک معاشی ڈاکا ہے جس کے تحت صحافیوں کو بے روزگار کرنے کی کوشش ہے۔

مزید پڑھیں: میڈیا انڈسٹری کی نمائندہ تنظیموں نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو مسترد کردیا

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی صحافیوں سے اپنی یکجہتی کا اظہار کرتی اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں صحافیوں کے مسائل پر آواز اٹھائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کے کسی بھی حصے میں صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ہماری پارٹی ان کے ساتھ احتجاج میں شریک ہوگی۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اگر مجوزہ قانون پاس ہوتا ہے تو ہماری پارٹی کا پیپلز لیبر بیورو آپ کے ساتھ مل کر اس کے خلاف جدوجہد کرے گا۔

صحافیوں کا یہ احتجاج ٹوکن احتجاج نہیں ہونا چاہیے، مولانا اسعد محمود

قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام کے پارلیمانی لیڈر اسعد محمود نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت آپ کے خلاف قانون سازی نہیں ہو رہی ہے بلکہ پاکستان کی اسلامی اور جمہوری دونوں صفتوں کے خلاف قانون سازی ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تین سال کی پارلیمانی دور میں برملا کہتا ہوں کہ ہماری سیاست، پارلیمان، پاکستان کے ادارے بھی یرغمال اور صحافی بھی یرغمال ہے لیکن الیکشن کے فوری بعد ہم نے علم بغاوت بلند کیا اورجدوجہد کی۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام ملک کی سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا، دیگر جماعتوں نے جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ شانہ بشانہ اس جدوجہد میں کردار ادا کیا، اتار چڑھاؤ آئے لیکن آج بھی حزب اختلاف کی جماعتیں اگر کسی چیز پر متفق ہیں تو وہ یہ ہے کہ آئین کی بالادستی ہو اور قانون کی حکمرانی ہو ۔

مولانا اسعد محمود نے کہا کہ اس کے لیے آئین اور قانون نے جو دائرہ بنایا ہے اسی دائرے کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد جاری رکھیں، اس پارلیمان کے اندر طاقت کے بل پر قانون سازی ہوتی ہے، ہمارے پاس آئین کے اندر رہتے ہوئے اگر کوئی طاقت ہے تو وہ عوام ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ عوام میں جانے کے لیے تیار ہیں، ہم اس غلامی کو مزید قبول کرنے کو قطعاً تیار نہیں ہیں، آپ ہمیں اپنا نصب العین اور حکمت عملی بتائیں، ہم سیاسی جماعتیں پارلیمان کے اندر بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے، آج بھی کھڑے رہے ہیں اور تین سال کے اندر صحافیوں کے ساتھ ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں ایسے صحافی حضرات بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنے قلم کا سودا نہیں کیا، ایسے صحافی حضرات بھی موجود ہیں جو آج بھی میڈیا ہاؤسز کے اندر ہیں لیکن ان کی آوازوں کو بند کردیا جاتا ہے لیکن وہ حکمت عملی کے تحت اپنی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے رہنما نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے زیادہ آمرانہ حکومت نہیں دیکھی، میں یقین اور اعتماد دلاتا ہوں کہ جمعیت علمائے اسلام اگر آئین اور اسلامی قوانین کے تحفظ، عوامی حقوق کے میدان عمل میں ہے تو وہ آپ صحافی حضرات کے ساتھ بھی میدان عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں پچھلے احتجاج میں بھی یہ کہہ کر آیا ہوں کہ آپ کا یہ احتجاج بھی ٹوکن احتجاج نہیں ہونا چاہیے، ہمارا اس احتجاج میں شرکت کرنا ٹوکن شرکت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم اپنے حقوق حاصل نہیں کر لیتے، جب تک اس بے لگام گھوڑے کو لگام نہیں ڈال دیتے جب تک ہم آپ کے ساتھ، قوم کے ساتھ اور آئین اور قانون کے لیے جنگ لڑتے رہیں گے۔

مجوزہ اتھارٹی کا قیام آئین، جمہوریت کی موت ہوگی، احسن اقبال

علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے بھی صحافیوں کے دھرنے میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں کہا کہ میڈیا کنٹرول کرنے کی سازش کامیاب ہوگئی تو پاکستان میں آئین اور جمہوریت کی موت واقع ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم ملک کو کسی کی جاگیر نہیں بننے دیں گے، یہ قائد اعظم کا پاکستان ہے جہاں آئین کی حکمرانی ہوگی، آزادی صحافت کو محفوظ اور مقدم سمجھا جائے گا۔

احسن اقبال نے کہا کہ میں ان کو سلام پیش کرتا ہوں جن صحافیوں نے حق بات کرنے کی پاداش میں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھویا ہے۔

علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے رہنما پرویز رشید نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ شُتر مُرغ حقائق کا مقابلہ کرنے کی بجائے ریت میں مُنہ چھپا لیتا ہے، قلم اور کیمرے کو پابند کرنے والی ریاستیں اور سماج ’شتر مرغ ریاستیں اور سماج‘ ہی کہلائیں گی۔

اس سے قبل میڈیا پبلشرز، صحافیوں، براڈکاسٹرز، ایڈیٹرز اور نیوز ڈائریکٹرز کی نمائندہ تنظیموں نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس کو مسترد کردیا تھا۔

میڈیا تنظیموں نے مجوزہ آرڈیننس کو آزادی صحافت اور اظہارِ رائے کے خلاف غیر آئینی اور سخت قانون قرار دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میڈیا ورکرز کیلئے میکنزم بنا کر ان کے حقوق دیں گے، معاون خصوصی

آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس)، پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے)، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے، بَرنا گروپ)، پی ایف یو جے (دستور گروپ) اور ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک، میڈیا ایڈیٹرز اور نیوز ڈائریکٹرز (اے ای ایم ای این ڈی) کے مشترکہ اجلاس میں متفقہ رائے تھی کہ مجوزہ پی ایم ڈی اے کا مقصد میڈیا کی آزادی کو روکنا اور انفارمیشن بیوروکریسی کے ذریعے میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔

اے پی این ایس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر تنویر اے طاہر کے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت، میڈیا پر اپنی گرفت سخت کرنا چاہتی ہے جبکہ اس نے اس حقیقت کو بھی نظر انداز کردیا کہ پرنٹ، ڈیجیٹل اور الیکٹرانک میڈیا کئی اعتبار سے الگ الگ خصوصیات کے حامل ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024