• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

فیس بک میں بااثر صارفین سے خصوصی سلوک کیے جانے کا انکشاف

شائع September 14, 2021
یہ دعویٰ ایک نئی رپورٹ میں سامنے آیا — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ دعویٰ ایک نئی رپورٹ میں سامنے آیا — شٹر اسٹاک فوٹو

مارک زکربرگ کا کہنا ہے کہ ان کے سوشل نیٹ ورک کے اصولوں کا اطلاق تمام صارفین پر یکساں انداز سے ہوتا ہے مگر فیس بک کے لاکھوں صارفین پر ان قوانین کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا۔

یہ دعویٰ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک نئی رپورٹ میں کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق فیس بک کا ایک خفیہ اندرونی نظام ہے جو 58 لاکھ صارفین پر سوشل نیٹ ورک کے اصولوں کا اطلاق نہیں ہونے دیتا۔

امریکی جریدے کی رپورٹ میں تمام تر تفصیلات بتائی گئی کہ کن باثر، مقبول اور خبروں میں رہنے والے ہائی پروفائل صارفین کے خلاف اصولوں کی خلاف ورزی پر وہ اقدامات نہیں ہوتے جن کا سامنا عام صارفین کو ہوتا ہے۔

رپورٹ میں کمپنی کے دستاویزات کی بنیاد پر بتایا گیا کہ فیس بک کے ایک سابق ملازم نے ایک میمو میں بتایا کہ کمپنی کی جانب سے 'طاقتور کرداروں' کو استثنیٰ دیا جاتا ہے۔

شخصیات جیسے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، فٹبالر نیمار جونیئر، امریکی سینٹر ایلزبتھ وارن اور دیگر کی پوسٹس کو اس خفیہ سسٹم کے تحت کور کیا جاتا ہے۔

اس سسٹم کو ایکس چیک یا کراس چیک کے ناموں سے پکارا جاتا تھا اور اس کی تشکیل فیس بک کی انسانی اور اے آئی موڈریشن پراسیس کی صلاحیت محدود ہونے سے کی گئی۔

مگر رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس خفیہ سسٹم سے کمپنی کے لیے دیگر مسائل پیدا ہوا۔

جب صارفین کو اس سسٹم کا حصہ بنایا جاتا تو موڈریٹرز کے لیے ان کے خلاف ایکشن لینا زیادہ مشکل ہوجاتا۔

مثال کے طور پر نیمار جونیئر نے ان پر ریپ کا الزام لگانے والی خاتون سے ہونے والی واٹس ایپ چیٹ کو فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹ پر پوسٹ کردیا تھا۔

اس اسکرین شاٹ میں خاتون کا نام اور نامناسب تصاویر بھی شامل تھیں، جس کے بعد فیس بک نے وہ پوسٹ ڈیلیٹ کردی۔

مگر چونکہ نیمار جونیئر کو ایکس چیک کے تحت کور کیا جاتا تھا تو موڈریٹرز کو ان کا مواد ہٹانے سے روکا گیا جس کو ڈیلیٹ کیے جانے تک 5 کروڑ 60 لاکھ افراد نے دیکھا۔

دستاویزات کے مطابق ایکس چیک کا 10 فیصد سے بھی کم مواد پر نظرثانی ہوتی ہے۔

فیس بک کے ترجمان نے وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ اس شرح میں 2020 میں اضافہ ہوا مگر اس حوالے سے شواہد فراہم نہیں کیے۔

فیس بک کے متعدد ملازمین کے پاس ایکس چیک سسٹم میں شامل کرنے کی پاور ہے اور اس میں بااثر پروفائلز کو ہی شامل کیا جاتا ہے، مگر رپورٹ میں ایک آڈٹ کا جائزہ لینے پر بھی یہ معلوم ہیں ہوسکا کہ کس طریقہ کار کے تحت لوگوں کو اس نظام کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ فیس بک کے ملازمین بشمول سوک ٹیم کی سربراہی کرنے والے ایک عہدیدار کی جانب سے کچھ صارفین کے ساتھ کیے جانے والے خصوصی سلوک پر تحفظت کا اظہار کیا۔

ایک اور میمو میں ایسے ایک عہدیدار نے لکھا کہ مختلف لوگوں کے مختلف قوانین میرے لیے تکلیف دہ ہے۔

ایک اور عہدیدار نے کہا کہ فیس بک کی جانب سے سیاسی تصورات کو مدنظر رکھتے ہوئے بااثر افراد کے مواد کی موڈریشن کی جاتی ہے۔

فیس بک نے بھی وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں ایکس چیک کی موجودگی کا اعتراف کیا۔

کمپنی کی دستاویزات سے فیس بک کی جانب سے اس سسٹم کے خاتمے کا عزم بھی سامنے آیا اور ایک پراڈکٹ منیجر نے ایک منصوبہ بھی پیش کیا تاکہ فیس بک ملازمین کو ایکس چیک میں شامل کرنے سے روکا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024