• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

منتخب نمائندوں کے حلف کیلئے مدت مقرر کرنے کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی درخواست مسترد

شائع October 1, 2021
مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی—فائل فوٹو: ہائی کورٹ ویب سائٹ
مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی—فائل فوٹو: ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے منتخب نمائندے کے حلف اٹھانے کے لیے 60 روز کی مدت مقرر کرنے کے صدارتی آرڈیننس کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی درخواست مسترد کردی۔

صدارتی آرڈیننس کے خلاف مذکورہ درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔

مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ میں اپنے پارلیمانی رہنما اعظم نذیر کے توسط سے الیکشن (تیسری ترمیم) آرڈیننس 2021 کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس میں اسے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

خیال رہے کہ آرڈیننس کے تحت منتخب رکن کے لیے ایوان کے پہلے اجلاس کے بعد 60 روز کے اندر حلف اٹھانا لازم قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:منتخب ارکان کے لیے 60 دن کے اندر بطور قانون ساز حلف اٹھانا لازمی قرار

درخواست گزار کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے وکیل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ صدارتی آرڈیننس دو ستمبر کو جاری ہوا جسے چیلنج کیا گیا ہے، آرڈینس کے مطابق 60 روز میں منتخب عوامی نمائندے کا حلف لینا ضروری ہے۔

انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ الیکشن ترمیمی آرڈیننس میں یہی شق سینیٹ نے منظور نہیں کی تھی۔

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ 3 طرح کی ہنگامی صورت حال میں ہی صدر مملکت آئین کی دفعہ 89 کے تحت آرڈیننس جاری کر سکتے ہیں۔

وکیل کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمنٹ کا اجلاس ممکن نہ ہو تو ہی ایمرجنسی میں آرڈیننس جاری کیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ سیاسی جماعت اس درخواست میں متاثرہ فریق کیوں ہے، ساتھ ہی کہا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت متاثرہ ہو تو پارلیمنٹ میں آرڈیننس مسترد کر سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دے دی

انہوں نے دریافت کیا کہ عدالت کو اس قسم کے سیاسی معاملے میں کیوں پڑنا چاہیے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر کیس میں اس عدالت کا جاری کردہ فیصلہ پڑھیں، اگر کوئی منتخب ہونے کے بعد حلف نہیں لیتا تو عوام اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سیاسی جماعت اس نکتے کی حمایت کرتی ہے؟ جب اپوزیشن کے پاس سینیٹ میں اکثریت موجود ہے تو پھر وہ اسی فورم پر جائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت موجود ہے، کیا اپوزیشن یہ کہہ رہی ہے ہماری سینیٹ میں اکثریت موجود ہے لیکن ہم اس کو استعمال نہیں کر رہے۔

چیف جسس نے مزید کہا کہ پٹشنر قابل احترام سیاسی جماعت ہے ان کے پاس سینیٹ میں اپوزیشن کے ساتھ اکثریت موجود ہے، کیا سیاسی جماعت یہ کہہ رہی ہے کہ عوام بغیر نمائندے کے ہونے چاہئیں؟

یہ بھی پڑھیں: چوہدری نثار نے انتخابات میں کامیابی کے ڈھائی سال بعد بطور رکن پنجاب اسمبلی حلف اٹھالیا

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت پارلیمنٹ کو تجویز کر رہی ہے کہ عدالت کو نہیں، پارلیمنٹ کو اپنے اختیارات استعمال کرنے چاہئیں۔

عدالت نے ابتدائی دلائل کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے 60 روز میں منتخب عوامی نمائندے کا حلف لازمی قرار دینے کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی درخواست مسترد کردی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت سیاسی معاملات میں غیر معمولی صوابدیدی اختیارات استعمال نہیں کرنا چاہتی۔

عدالت نے فیصلے میں امید ظاہر کی کہ مسلم لیگ (ن )سمیت تمام سیاسی جماعتیں تنازعات کو حل اور پارلیمنٹ کو مضبوط کریں گی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024