• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

'پینڈورا پیپرز': حکومتوں، ریاستوں کے سربراہان آف شور اثاثوں کے مالک نکلے

شائع October 4, 2021
درجنوں ریاستوں و حکومتی سربراہان نے آف شور ٹیکس ہیونز میں کروڑوں کی دولت چھپا کر رکھی ہے — فائل فوٹو / رائٹرز
درجنوں ریاستوں و حکومتی سربراہان نے آف شور ٹیکس ہیونز میں کروڑوں کی دولت چھپا کر رکھی ہے — فائل فوٹو / رائٹرز

آئی سی آئی جے میڈیا کنسورشیم کی جانب سے شائع کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اردن کے بادشاہ اور جمہوریہ چیک کے وزیراعظم سمیت درجنوں ریاستوں و حکومتی سربراہان نے آف شور ٹیکس ہیونز میں کروڑوں کی دولت چھپا کر رکھی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 'پینڈورا پیپرز' تحقیقات، جس میں واشنگٹن پوسٹ، بی بی سی اور گارجین سمیت لگ بھگ 600 صحافی شامل ہیں، دنیا کی 14 مالیاتی خدمات سرانجام دینے والی کمپنیوں کے ایک کروڑ 19 لاکھ دستاویزات سے ہونے والے انکشافات پر مبنی ہے۔

انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی تجزیے میں دستاویزات میں تقریباً 35 موجودہ اور سابقہ رہنماؤں کے نام شامل ہیں جن پر کرپشن، منی لانڈرنگ اور عالمی سطح پر ٹیکس چوری کرنے کے الزامات ہیں۔

دستاویزات میں واضح کیا گیا کہ کس طرح شاہ عبداللہ دوئم نے آف شور کمپنیوں کا نیٹ ورک بنایا اور ٹیکس ادائیگی کم کرکے ملیبو، کیلیفورنیا سے واشنگٹن اور لندن میں 10 کروڑ ڈالرز کی جائیدادیں بنائیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت 'پینڈورا پیپرز' میں نامزد تمام شہریوں کی تحقیقات کرے گی، عمران خان

بی بی سی نے شاہ عبداللہ کے وکیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام جائیدادیں ذاتی دولت سے خریدی گئی ہیں اور یہ اعلیٰ عہدیداران کے لیے عام ہے کہ وہ رازداری اور سلامتی کی وجوہات کی بنا پر آف شور کمپنیوں کے ذریعے جائیدادیں خریدتے ہیں۔

دستاویزات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ رواں ہفتے انتخابات کا سامنا کرنے والے جمہوریہ چیک کے وزیر اعظم آندرے بابس نے فرانس کے جنوب میں 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر مالیت کا قلعہ خریدنے کے لیے استعمال ہونے والی آف شور کمپنی کو ظاہر نہیں کیا۔

آئی سی آئی جے نے مجموعی طور پر 336 اعلیٰ سطح کے سیاستدانوں، ملکی سربراہان، کابینہ کے وزرا، سفرا اور دیگر سمیت عوامی عہدہ رکھنے والوں کو آف شور ہیونز میں تقریباً ایک ہزار کمپنیوں سے منسلک پایا۔

دستاویزات کے مطابق دو تہائی سے زائد کمپنیاں برطانیہ کے ورجن آئی لینڈ میں قائم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'پینڈورا پیپرز': وزیرخزانہ شوکت ترین، مونس الہٰی سمیت 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام

آئی سی آئی جے نے زور دیا کہ بیشتر ممالک میں آف شور اثاثے رکھنا یا ملک کی سرحدوں سے باہر کاروبار کرنے کے لیے کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں ہے۔

تاہم اس طرح کے انکشافات کرپشن کے خلاف مہم چلانے والے یا اپنے ملک میں کفایت شعاری کی وکالت کرنے والے رہنماؤں کے لیے باعث شرمندگی ہیں۔

آئی سی آئی جے رپورٹ کے دیگر انکشافات

آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کے اہل خانہ اور ان کے ساتھی بھی مبینہ طور پر برطانیہ میں خفیہ طریقے سے کروڑوں ڈالر مالیت کی جائیداد کے معاہدوں میں ملوث پائے گئے۔

مزید پڑھیں: 'پینڈورا پیپرز' کیا ہیں؟

کینیا کے صدر اوہورو کینیاٹا اور ان کے خاندان کے 6 افراد پر مبینہ طور پر خفیہ طریقے سے آف شور کمپنیوں کے نیٹ ورک کی ملکیت کا الزام ہے۔

روسی صدر ولادی میر پوٹن کا دستاویزات میں براہ راست نام شامل نہیں ہے لیکن وہ بھی ساتھیوں کے ذریعے موناکو میں خفیہ اثاثے رکھنے والوں میں شامل ہیں۔

'پینڈورا پیپرز' مالیاتی دستاویزات کی آئی سی آئی جے لیکس کی تازہ ترین سریز ہے جو 2014 میں شروع ہونے والی لکس لیکس سے منسلک ہے جس کے بعد پاناما پیپرز، پیراڈائز پیپرز اور فِنسین سامنے آئے تھے۔

تازہ ترین تحقیقات کی دستاویزات برٹش ورجن آئی لینڈ، پاناما بیلائز، قبرص، متحدہ عرب امارات، سنگاپور اور سوئٹزرلینڈ سمیت دیگر ممالک میں واقع مالیاتی خدمات انجام دینے والی کمپنیوں سے حاصل کی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پنڈورا لیکس سے وزیراعظم عمران خان کے مؤقف کو مزید تقویت ملے گی، فواد چوہدری

دریں اثنا مقامی میڈیا پر جاری کیے گئے سرکاری خط میں پاناما نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نئے انکشافات کی اشاعت پر ان کی ساکھ کو دوبارہ نقصان پہنچ سکتا ہے جو 'پاناما پیپرز' کے اسکینڈل سے سنگین متاثر ہوئی تھی۔

پاناما حکومت نے قانونی فرم کے ذریعے 'آئی سی جے آئی' کو بھیجے گئے خط میں کہا کہ 'یہ نقصان ناقابل تلافی ہو سکتا ہے'۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں سے متعلق 'غلط تصور' پر مبنی کسی بھی اشاعت کو تقویت دینا پاناما اور اس کے لوگوں کے لیے تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024