• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

حکومت نے کابینہ سے منظوری کے بعد ٹی ایل پی پر عائد پابندی ہٹادی

شائع November 7, 2021
حکومت نے رواں برس اپریل میں ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دیا تھا—فائل/فوٹو: اے ایف پی
حکومت نے رواں برس اپریل میں ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دیا تھا—فائل/فوٹو: اے ایف پی

وفاقی حکومت نے وزیراعظم عمران خان اور کابینہ سے منظوری کے بعد تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر عائد پابندی ہٹا دی اور وزارت داخلہ نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا۔

وزارت داخلہ سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وفاقی حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی ذیلی شق ون کے تحت تحریک لبیک پاکستان کو مذکورہ ایکٹ کے فرسٹ شیڈول سے بطور کالعدم جماعت نکال دیا ہے۔

اس سے قبل کابینہ ڈویژن سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ ‘کابینہ نے 6 نومبر 2021 کو داخلہ ڈویژن سے جمع کرائی گئی سمری کا جائزہ لیا جو رولز آف بزنس کے رول 17 ون بی اور 19 ون کے تحت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے پابندی ہٹانے کے لیے بھیجی گئی تھی’۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم نے ٹی ایل پی سے پابندی ہٹانے کی سمری کابینہ میں پیش کرنے کی منظوری دے دی

نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ‘کابینہ نے سمری کے پیراگراف نمبر 8 پر دی گئی تجویز کی منظوری دے دی ہے’۔

رولز آف بزنس 1973 کے مطابق وزیراعظم سے منظوری کا مطلب ہوگا کہ سمری وفاقی کابینہ کو بھیج دی جائے گی، پھر وزرا کی تجاویز واپس وزیراعظم کو بھیج دی جائیں گی تاکہ اس معاملے پر مزید فیصلے کیے جائیں، اگر کسی وزیر کا مؤقف مخصوص وقت تک نہیں آئے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ انہوں نے سمری میں دی گئی تجاویز کی منظوری دے دی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ٹی ایل پی سے پابندی ہٹانے کے لیے سمری کابینہ میں پیش کرنے کی منظوری دے دی تھی۔

قبل ازیں وفاقی حکومت نے رواں برس اپریل میں ملک بھر میں تین روز کے پرتشدد احتجاج کے بعد ٹی ایل پی کو انسداد دہشت گردی قانون کے تحت کالعدم قرار دیاتھا۔

وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے وزیراعظم کو بھیجی گئی سمری میں کہا گیا تھا کہ ٹی ایل پی نے حکومت پنجاب سے 29 اپریل کو پابندی ہٹانے کے لیے درخواست دے دی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر غور کرنے کے لیے ایک جائزہ کمیٹی (پی آر سی) تشکیل دی گئی تھی اور اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کا حکومتی فیصلہ حقائق کی بنیاد پر تھا تاہم اب اس حوالے سے وزارت قانون کا مؤقف بھی لیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ نے کہا کہ ‘تنظیم کی جانب سے یقین دہانی کے ساتھ وسیع تر قومی مفاد کی روشنی میں’ صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت سے کہا کہ وہ ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کا جائزہ لیا جائے۔

سمری میں کہا گیا کہ ‘وزیراعظم نے مذکورہ سمری رولز آف بزنس 1973 کے رول 17 ون بی کے تحت کابینہ میں پیش کرنے کی اجازت دے دی ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کو ’کالعدم‘ کی فہرست سے نکالنے کیلئے پنجاب کابینہ کا لائحہ عمل تیار

ٹی ایل پی سے پابندی کے خاتمے سے متعلق کہا گیا تھا کہ ‘حکومت پنجاب کی تجویز پر انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ٹی ایل پی سے پابندی ہٹانے کی منظوری دینے کے لیے کابینہ سے درخواست کی گئی ہے’۔

ٹی ایل پی کا احتجاج

ٹی ایل پی سے پابندی ہٹانے کا معاملہ حالیہ احتجاج کے دوران سامنے آیا تھا اور اس پر نظر ثانی کرنے کی یقین دہانی کرادی گئی تھی۔

ٹی ایل پی نے 20 اکتوبر کو لاہور میں حکومت پنجاب پر اپنے سربراہ مرحوم خادم حسین رضوی کے بیٹے حافظ سعد حسین رضوی کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے احتجاج کے تازہ ترین دور کا آغاز کیا تھا۔

سعد رضوی کو 12 اپریل سے پنجاب حکومت نے ’امن عامہ کو برقرار رکھنے‘ کے لیے حراست میں رکھا ہوا ہے۔

تاہم ٹی ایل پی رہنما پیر اجمل قادری نے بعد میں کہا تھا کہ اس اقدام کا مقصد ’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام‘ تھا جبکہ انہوں نے سعد رضوی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔

مزیدپڑھیں: ٹی ایل پی مظاہرین نے جی ٹی روڈ کھول دیا، سعد رضوی کی رہائی تک وزیر آباد میں دھرنا جاری

لاہور میں پولیس کے ساتھ تین روز تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد ٹی ایل پی نے 22 اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا آغاز کیا۔

لاہور اور گوجرانوالہ میں مارچ کے دوران تصادم کے دوران 5 پولیس اہلکار شہید اور مارچ کے شرکا اور پولیس دونوں کے سیکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے۔

ٹی ایل پی کی قیادت نے 30 اکتوبر کو مظاہرین سے کہا کہ وہ وزیر آباد میں قیام کریں اور مزید ہدایات کے لیے انتظار کریں جب حکومت اور تنظیم نے مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔

31 اکتوبر کو حکومت کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کے ارکان نے دعویٰ کیا کہ وہ کالعدم تنظیم کے ساتھ 'معاہدہ' پر پہنچ چکے ہیں لیکن اس کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ ٹی ایل پی کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ حکومت، ٹی ایل پی کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف معمولی مقدمات کی پیروی نہیں کرے گی تاہم انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات کا فیصلہ عدالتیں کریں گی۔

انہوں نے ٹی ایل پی کی قیادت کو یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ کالعدم تنظیم کے اکاؤنٹس اور اثاثوں کو غیر منجمد کر دے گی اور تنظیم پر لگی پابندی ہٹانے کے لیے اقدامات کرے گی۔

پابندی کے خاتمے کیلئے حکومت پنجاب کی تجویز

وفاقی حکومت کی اسٹیئرنگ کمیٹی اور پنجاب کابینہ کی کمیٹی برائے قانون کی سفارشات کے بعد صوبائی حکومت نے کابینہ کے اراکین کو ایک سمری بھیجی جس میں ٹی ایل پی پر سے پابندی جلد از جلد اٹھانے کی منظوری طلب کی گئی۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’اگر تین دنوں میں کسی وزیر سے رائے/ منظوری نہیں لی جائے گی تو یہ سمجھا جائے گا کہ وزیر نے سمری میں شامل سفارشات کو قبول کر لیا ہے‘۔

معاملے کی حساسیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ذرائع کے مطابق تمام صوبائی وزرا نے فوری طور پر وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کو اپنی منظوری سے آگاہ کیا۔

مزید پڑھیں: ’حکومت، ٹی ایل پی کے درمیان معاہدہ طے پاگیا، نگرانی کیلئے کمیٹی قائم‘

پنجاب حکومت کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ وزیر اعلیٰ اب صوبائی کابینہ سے منظوری کو حتمی منظوری کے لیے وفاقی حکومت کو بھیجیں گے۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ ’وفاقی کابینہ پابندی منسوخ کرنے کی منظوری دے گی اور پھر وزارت داخلہ اسے نوٹیفائی کرے گی‘۔

جہاں وفاقی حکومت اور ٹی ایل پی کے معاہدے کے بعد تقریباً 2 ہزار 100 ٹی ایل پی کارکنوں کو پولیس کی حراست سے رہا کیا گیا ہے، وہیں تنظیم کے کالعدم ہونے کی حیثیت کی منسوخی سے ٹی ایل پی کے تقریباً 8 ہزار کارکن خود بخود فورتھ شیڈول سے خارج ہو جائیں گے۔

فورتھ شیڈول ایک ایسی فہرست ہے جس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت دہشت گردی اور فرقہ واریت کے جرم میں مشتبہ افراد کو رکھا جاتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024