• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بھارتی فورسز نے لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں کو گرفتار کرلیا

شائع November 18, 2021
مظاہرین نے شدید سردی کے باوجود موم بتی جلا کر احتجاج ریکارڈ کرایا— فوٹو: رائٹرز
مظاہرین نے شدید سردی کے باوجود موم بتی جلا کر احتجاج ریکارڈ کرایا— فوٹو: رائٹرز

مقبوضہ کشمیر میں متنازع پولیس چھاپے کے دوران جاں بحق افراد کی لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنے والے افراد کو بھارتی پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق ورثا نے پولیس سے ان افراد کی لاشیں حوالے کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ وہ ان کی تدفین کر سکیں۔

مزید پڑھیں: بھارت: انتہاپسندوں کے احتجاج پر مسلمانوں کو گردوارے میں نماز ادا کرنے کی پیش کش

عینی شاہدین کے مطابق مسلح پولیس نے سرینگر میں مظاہرے کے مقام کی لائٹیں بند کرنے کے بعد مظاہرین پر دھاوا بول دیا اور مظاہرین کو گھسیٹ کر پولیس کی گاڑی میں ڈال دیا اور اس دوران مقتولین کے اہل خانہ سخت سردی میں نعرے بازی کرتے رہے۔

سوشل میڈیا پر زیر گردش ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ متاثرین میں سے ایک شخص نے پولیس کی بندوق کا رخ اپنے سینے کی طرف کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے گولی مارو دہشت گردو‘۔

سرینگر میں پیر کی رات پولیس کے چھاپے میں دو شہریوں سمیت 4افراد جاں بحق ہو گئے تھے جہاں پولیس کا دعویٰ تھا کہ ان جاں بحق افراد میں حریت پسندوں کے ساتھ ساتھ ایک پاکستانی بھی شامل ہے۔

پولیس کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ یہ افراد پولیس اور حریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے دوران مارے گئے لیکن عینی شاہدین اور مقتولین کے ورثا کا کہنا ہے کہ بھارتی پولیس نے ان افراد کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: چھاپے میں قتل افراد کے اہلخانہ کا لاشیں حوالے کرنے کا مطالبہ

بھارتی حکام نے بعد میں 2020 میں شروع ہونے والی پالیسی کے تحت لاشوں کو ایک دور افتادہ شمال مغربی گاؤں میں خفیہ طور پر دفن کر دیا۔

2020 میں اس پالیسی کے آغاز سے اب تک حکام سینکڑوں مبینہ حریت پسندوں اور ان کے ساتھیوں کی لاشیں دور دراز علاقوں میں بے نام و نشان قبروں میں دفن کر چکے ہیں اور ان کے اہل خانہ کو تدفین کے لیے لاش دینے سے انکار کردیتے ہیں۔

ان شہریوں کے ناموں کی شناخت تاجر محمد الطاف بھٹ اور ڈینٹل سرجن کے ساتھ ساتھ ریئل اسٹیٹ ڈیلر مدثر کے ناموں سے ہوئی ہے اور ان کے اہل خانہ نے سری نگر کے ایک علاقے میں جمع ہو کر احتجاج کرتے ہوئے لاشوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین نے نعرے لگائے اور ان میں سے کچھ نے کتابچے اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ بے گناہوں کا قتل اور مظالم بند کرو‘ اور ’ہمیں انصاف چاہیے‘۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں ایک کشمیری کے سفاکانہ قتل کی شدید مذمت

تاجر الطاف بھٹ کی ایک رشتے دار صائمہ بھٹ نے کہا کہ انہیں انصاف کی امید بہت کم ہے، انصاف ایک طویل سفر ہے، ہم التجا کرتے ہیں کہ ہمارے پیاروں کی لاشیں واپس کر دی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کم از کم مرنے والوں کا احترام کریں اور ہمیں ان کی باوقار طریقے سے تدفین کی اجازت دیں۔

یہ احتجاج بدھ کی رات تک جاری رہا اور مظاہرین نے شدید سردی کے باوجود موم بتی جلا کر احتجاج ریکارڈ کرایا۔

بدھ کے روز بھی جنوبی علاقے گول کے نصف درجن دیہاتوں میں فوج کو تعینات کردیا تھا اور چار سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگا دی تھی کیونکہ مقتولین کے ورثا میں سے ایک شخص نے ہائی بلاک کرنے کی دھمکی دی تھی۔

پولیس کی جانب سے عسکریت پسند قرار دیے گئے عامر ماگرے سرینگر کی ایک دکان میں سیلزمین تھا اور 2005 میں ان کے ہاتھوں سے ایک عسکریت پسند مارا گیا تھا جس کی وجہ سے ان کے گھر کی حفاظت کے لیے پولیس گارڈز کو تعینات کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارتی پولیس کی مقبوضہ کشمیر میں کارروائی، 4 کشمیری جاں بحق

عامر کے والد عبدالطیف نے کہا کہ میرے بیٹے کی لاش دینے سے انکار دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا صلہ ہے، میرے گھر پر اب بھی پولیس کا پہرہ ہے، کل سیکیورٹی گارڈز مجھے مار کر دعویٰ کر سکتے ہیں کہ میں ایک عسکریت پسند تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ حریت پسندوں کی لاشیں ان کے اہل خانہ کو واپس نہ کرنے کی پالیسی کا مقصد کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا اور جنازوں کے دوران امن و امان کے ممکنہ مسائل سے بچنا ہے۔

اس پالیسی نے خطے میں وسیع پیمانے پر بھارت مخالف غصے میں اضافہ کیا ہے اور انسانی حقوق کے کچھ گروپوں نے اس اقدام پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

کشمیری کئی سالوں سے بھارتی فوجیوں پر شہریوں کو نشانہ بنانے اور ان سے زیادتی کے الزامات لگاتے رہے ہیں، ان الزامات میں ترقی پانے اور انعام کے حصول کے لیے جعلی پولیس مقابلے میں معصوم شہریوں کا قتل اور انہیں شدت پسند قرار دینا بھی شامل ہے۔

بھارتی حکام اس حقیقت کو کو تسلیم کرتے ہیں لیکن مسلسل زیادتیوں کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ یہ بدسلوکی کسی حکمت عملی کا حصہ نہیں ہے اور یہ الزامات فوج کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط نو آبادیات کی بدترین مثال ہے، پاکستان

دریں اثنا، بدھ کو قابض بھارتی فوج نے جنوبی ضلع کولگام کے دیہات میں دو الگ الگ پولیس مقابلوں میں پانچ مشتبہ علیحدگی پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے پولیس سربراہ وجے کمار نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ مرنے والے 5 لوگوں میں حریت پسندوں کا مقامی کمانڈر بھی شامل ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024