کراچی: مسلم لیگ(ن) کی گرین لائن منصوبے کے علامتی افتتاح پر تشدد کی مذمت
کراچی: پاکستان مسلم لیگ(ن) نے کراچی میں گرین لائن میٹرو بس منصوبے کے علامتی افتتاح کے موقع پر ’ریاستی سرپرستی‘ میں سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے لیگی قیادت اور کارکنوں پر تشدد کی شدید مذمت کی ہے۔
جمعرات کو مسلم لیگ(ن) کے رہنما احسن اقبال کے ساتھ ساتھ سابق گورنر سندھ محمد زبیر، سابق وزیر داخلہ مفتاح اسماعیل، کیئل داس کوہستانی، نہال ہاشمی، سورتھ تھیبو، علی اکبر گجر اور بھی گرین لائن منصوبے کے علامتی افتتاح کے موقع پر موجود تھے۔
مزید پڑھیں: کراچی گرین لائن بس منصوبہ 25 دسمبر سے فعال ہوگا، اسد عمر
تاہم منصوبے کے علامتی افتتاح کے بعد صورتحال اس وقت گمبھیر ہو گئی جب مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں نے ناظم آباد نمبر7 پر گرین لائن ٹریک پر جانے کی کوشش کی جس پر انتظامیہ نے راستے بند کردیے اور ان کو وہاں داخلے سے روک دیا جس پر لیگی کارکنان نے شدید نعرے بازی کی۔
مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں کو پیچھے ہٹانے کی کوشش میں پولیس و رینجرز کا لیگی کارکنوں سے تصادم ہوا اور اس دوران رینجرز کے لاٹھی چارج سے احسن اقبال کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ(ن) کی خاتون رہنما بھی زخمی ہو گئیں۔
اس موقع پر میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کے مرکزی جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں کو ’ریاستی سرپرستی میں تشدد‘ کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے ہاتھوں پر بھی لاٹھیاں ماری گئیں۔
کراچی گرین لائن کامنصوبہ مسلم لیگ(ن) نے 2016 میں شروع کیا تھا، اس منصوبے کی بنیاد اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے رکھی تھی اور یہ منصوبہ دسمبر2018 میں مکمل ہوناتھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کی تعمیر میں تاخیر کی گئی کیونکہ یہ مسلم لیگ(ن) کامنصوبہ تھا، لوگ کراچی میں ناقص ٹرانسپورٹ میں دھکے کھاتے رہے ہیں، یہ منصوبہ سوا تین سال میں بھی مکمل نہیں کیا جا سکا لیکن ہمیں خوشی ہے کہ یہ حکومت مسلم لیگ(ن) کے منصوبوں پر تختیاں لگاتی رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج ہمارے ساتھ ریاستی تشدد کیا گیا، سیاسی کارکنان پر سیکیورٹی ادارے نے تشدد کیا جس سے ایک کارکن زخمی ہوا، مجھے خوشی ہے کہ اس افتتاح میں ہماراخون بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ایسی صورتحال کھڑی ہو کہ عوام براہ راست ان اداروں کے سامنے آ کر کھڑے ہوں لیکن وہ رینجرز جس نے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا ہے، آج اس رینجرز کے ہاتھوں ایک سابق وزیر داخلہ کا خون بہا ہے تو یہ اس رینجرز اور حکومت کے لیے شرم کی بات ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گرین لائن منصوبے کیلئے 40 بسوں کی پہلی کھیپ کراچی پہنچ گئی
احسن اقبال نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے یہ حکومت پولیس والا کام لے رہی ہے، اس ادارے کو سیاست کے لیے استعمال کیا گیا، یہ ریاست دہشت گردوں پر ظلم کرتی اور یہ صرف غیرمسلح نہتے اور پرامن سیاسی کارکنوں پر سارا زور لگاتے ہیں لیکن جو لوگ پولیس کے اہلکاروں کا مارتے ہیں، جہاں سیالکوٹ جیسے واقعات ہوتے ہیں، وہاں ریاست بے بس نظر آتی ہے اور ان کا زور نہیں چلتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نے پہلے بھی گولیاں کھائی ہیں اور اگر اب بھی میرا لہو کراچی کی سرزمین پر گرا ہے تو یہ میرے لیے فخر کی بات ہے، میرے ساتھ جو ہوا وہ قابل مذمت عمل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سندھ کی ترقی کا جو سفرشروع کیا، اس حکومت نے اسے تباہ کردیا، ہم نے سکھر۔ملتان موٹروے بنایا، سکھر۔حیدرآباد منصوبے پر اگر کام مکمل ہو جاتا تو یہ بھی 2020 میں مکمل ہوجاتا۔
مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما نے مزید کہا کہ کراچی کی معیشت کو ہم نے بہتر بنایا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ کراچی کو پانی، بجلی، صفائی اور امن چاہیے، یہ چار چیزیں ہوں تو یہ شہر شنگھائی بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کو کراچی سے ووٹ نہیں ملا تھا لیکن پھر بھی ہم نے اقتدارمیں آ کر کراچی کا امن بحال کیا کیونکہ کراچی کی خوشحالی سے ملک خوشحال ہوگا۔
یہ بھی دیکھیں: کراچی گرین لائن کے علامتی افتتاح کے موقع پر بدنظمی، دھکم پیل
سابق گورنر محمد زبیر نے کہا کہ عمران خان کو گرین لائن کے افتتاح کے لیے آنے کی ضرورت نہیں، جن کا منصوبہ تھا انہوں نے اس کا افتتاح کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس ٹریک پر نہیں جارہے تھے لیکن ہم کو آج افتتاح سے روکا گیا، ہماری خاتون کارکن تک کو مارا گیا، تھوڑا خیال کرنا چاہیے تھا، ہم اس عمل کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
شہباز شریف کا تشدد کے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے کراچی میں احسن اقبال اور پارٹی کارکنان پر تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے اپے بیان میں کہا کہ عمران نیازی کے حکم پر کراچی میں رینجرز کے ذریعے سیکریٹری جنرل احسن اقبال سمیت پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔
مزید پڑھیں: ‘گرین لائن بس اور کے4 منصوبہ مسلم لیگ(ن) نے شروع کیا’
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں احسن اقبال اور پارٹی کے پرامن کارکنوں پر لاٹھی چارج، تشدد اور بدسلوکی قابل مذمت اورانتہائی افسوسناک ہے جس پر شدید احتجاج کریں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ سیاسی وجمہوری کارکنان پر بہیمانہ تشدد ناقابل قبول ہے اور واقعے کی اعلی سطح کی تحقیقات کر کے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
’قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لیگی قیادت اور کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا‘
مسلم لیگ (ن) کراچی کے جنرل سیکریٹری ناصرالدین محمود نے ڈان کو بتایا کہ بدھ کی رات سے ہی ان کی پارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں کے لیے رکاوٹیں کھڑی کردی گئی تھیں کیونکہ کارکنوں نے ناظم آباد نمبر 7 میں اس جگہ کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے گرین لائن بس منصوبے کے ’علامتی افتتاح‘ کا منصوبہ بنایا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پرائیویٹ گارڈز نے انہیں وہاں جانے کی اجازت نہیں دی اور جمعرات کی صبح بھی جب پارٹی کارکنوں نے اس جگہ کا دورہ کیا تو رینجرز اور پولیس نے انہیں روک دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کہا کہ وہ کچھ فاصلے پر رہیں گے اور محض علامتی طور پر اس منصوبے کا افتتاح کریں گے کیونکہ اس منصوبے کو شہر کے 70لاکھ شہریوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شروع کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اصرار پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کہا کہ انہیں وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ انہیں اجازت نہیں دینی اور ہمیں پیچھے دھکیل دیا جس کے بعد ہم واپس چلے گئے اور کچھ فاصلے پر ٹھہر گئے۔
یہ بھی دیکھیں: جدید گرین لائن بسوں میں کیا کیا سہولیات میسر اور کرایہ کتنا ہوگا؟ جانیے
مسلم لیگ(ن) کراچی کے رہنما نے مزید بتایا کہ جب پارٹی رہنما احسن اقبال جمعرات کی سہ پہر پہنچے اور اپنی گاڑی سے اترے تو پیرا ملٹری فورس نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔
انہوں نے کہا کہ احسن اقبال کو روکنے پر تقریباً 200 سے 250 کارکنوں نے مزاحمت کی جس پر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سابق وزیر داخلہ، سابق وزیر خزانہ اور سابق گورنر سندھ کی موجودگی میں ہم پر لاٹھی چارج کیا۔
انہوں نے کہا کہ لاٹھی چارج کے دوران احسن اقبال کو دو بار ڈنڈوں سے مارا گیا، پارٹی کی لیڈیز ونگ کی رہنما پروین بشیر کو بھی زدوکوب کیا گیا جس سے ان انگلی پر چوٹیں آئیں جبکہ پارٹی کی رہنما اور سابق رکن اسمبلی سورتھ تھیبو بھی گر کر زخمی ہو گئیں۔
ناصرالدین محمود نے کہا کہ نے کہا کہ ہم پرامن طریقے سے مظاہرہ کر رہے تھے اور ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کرنا چاہتے تھے تاہم اس کے باوجود ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
تبصرے (2) بند ہیں