مردوں میں بانجھ پن کی وجہ جاننے کے لیے بڑی پیشرفت
طبی ماہرین نے ایسے نئے جینیاتی میکنزم کو شناخت کیا ہے جو مردوں میں بانجھ پن کی سنگین قسم کا باعث بنتا ہے۔
یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دریافت کی گئی۔
نیو کیسل یونیورسٹی کی تحقیق میں مردوں میں بانجھ پن کے سب کے حوالے سے بڑی پیشرفت کے بارے میں بتایا گیا جس سے مستقبل میں علاج کے بہتر مواقع دستیاب ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسی جینیاتی میوٹیشنز جو ماں یا باپ سے ورثے میں منتقل نہیں ہوتیں، مردوں میں بانجھ پن میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
تحقیق کے مطابق یہ میوٹیشنز اس وقت ہوتی ہیں جب والدین کے ڈی این اے اے کی نقل بنتی ہے اور اس کے نتیجے میں مردوں میں بعد کی زندگی میں بانجھ پن کا خطرہ بڑھتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ یہ مردوں میں بانجھ پن کے سمجھنے کے حوالے سے ایک بڑی حقیقی تبدیلی ہے، بیشتر جینیاتی تحقیقی رپورٹس میں بانجھ پن کے موروثنی اسباب کا جائزہ لیا گیا جیسے والدین سے کسی جین میں میوٹیشن ہوئی وغیرہ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مگر ہماری تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ یہ میوٹیشنز اس وقت ہوئیں جب ڈی این اے کی نقل بنی اور یہ مردوں میں بانجھ پن میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم بانجھ پن کے شکار مردوں میں اس مسئلے کی وجوہات سے مکمل طور پر واقف نہیں اور اس تحقیق سے توقع ہے کہ مریضوں کو جوابات فراہم کیے جاسکیں گے/
اس تحقیق کے لیے بانجھ کے شکار 185 مردوں اور ان کے والدین کے ڈی این اے کو اکٹھا کرکے جانچ پڑتال کی گئی اور 145 ایسے پروٹین میں تبدیلیاں لانے والی میوٹیشنز کو دریافت کیا جس نے ممکنہ طور پر مردوں کے بانجھ پن کے مسئلے میں کردار ادا کیا۔
تحقیق کے مطابق کم از کم 29 میوٹیشنز اسپرم بنانے والے عمل میں شامل جینز پر اثرات مرتب کیے۔
ماہرین نے بانجھ پن کے شکار متعدد مردوں کے ایک جین آر بی ایم 5 میں میوٹیشنز کو دریافت کیا ہے اور چوہوں پر ہونے والی ایک پرانی تحقیق میں ثابت ہوا کہ یہ جین بانجھ پن میں کردار ادا کرتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کجہ یہ میوٹیشنز بانجھ پن کی ایک سنگین قسم کا باعث بنتی ہیں جس کے لیے ایک جین میں تبدیلیوں کی ہی ضرورت ہوتی ہے، اس کے نتیجے میں اس بات کا امکان 50 فیصد تک بڑھ جاتا ہے کہ یہ میوٹیشنز ایسے مردوں کے بیٹوں میں منتقل ہوکر بانجھ پن کا باعث بن جائے۔
ایک تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں 7 فیصد مرد بانجھ پن کے شکار ہیں جبکہ 50 فیصد کو کسی حد تک مسائل کا سامنا ہوتا ہے جس کی وجوہات مکمل طور پر واضح نہیں۔
محققین اب اپنی تحقیق کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ہزاروں مریضوں اور ان کے والدین پر ایک بین الاقوامی تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔
اس نئی تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے۔