• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

کورونا کی قسم اومیکرون کا وہ اسرار جس نے سائنسدانوں کو دنگ کردیا

شائع January 30, 2022
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

اس وقت جب دنیا بھر میں نرسز اور ڈاکٹر اومیکرون کے ریکارڈ کیسز کی لہر کے سامنے جدوجہد کرتے ہیں، سائنسدان ایک مختلف جدوجہد مین مصروف ہیں اور وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کی یہ متعدی قسم کیسے بنی۔

نومبر 2021 میں جب افریقہ کے جنوبی حصوں میں کورونا کی یہ قسم دریافت ہوئی تو سائنسدانوں نے اس کا جینیاتی جائزہ لیا۔

چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے کورونا وائرس کی ابتدائی اقسام میں اگر ایک سے 2 درجن میوٹیشنز تھیں تو اومیکرون میں 53 میوٹیشنز دریافت ہوئی، جو بہت زیادہ ہیں۔

حال ہی میں ایک نئی تحقیق کے نتائج سے اسرار کو مزید بڑھا دیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ اومیکرون میں موجود 13 میوٹیشنز دیگر کورونا وائرسز میں کبھی دریافت نہیں ہوئیں اور اس طرح یہ وائرس کی اس قسم کے لیے نقصان دہ ہونی چاہیے تھی، مگر بظاہر یہ میوٹیشنز اومیکرون کے بنیادی افعال کی کنجی ثابت ہوئیں۔

اب محققین یہ تعین کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر کس طرح اومیکرون ارتقا کے عام اصولوں کے خلاف کام کرنے اور ان میوٹیشنز کو استعمال کرکے بیماری کی کامیاب قسم کیسے بن گئی۔

جنوبی افریقہ کی کیپ ٹاؤن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل وائرلوجسٹ ڈیرن مارٹن نے بتایا 'یہ ایک اسرار ہے جس کو جاننے کی ضرورت ہے'۔

میوٹیشنز کورونا وائرس کی بقا کے معمول کا حصہ ہیں، ہر بار جب وائرس کسی خلیے کے اندر اپنی نقول تیار کرتا ہے تو معمولی امکان ہوتا ہے کہ خلیہ اس کے جینز کی ایک خامیوں والی نقل بھی تیار کرے گا، اس طرح کی بیشتر میوٹیشنز نئے وائرسز کو ادھورا کرتی ہیں اور وہ دیگر وائرسز کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔

مگر ایسا بھی ہوتا ہے جب ایک میوٹیشن کسی وائرس کو زیادہ بہتر بنادے، اس سے وائرس کو خلیات کو زیادہ مضبوطی سے جکڑنے میں مدد ملتی ہے یا وہ زیادہ تیزی سے نقول بنانے کے قابل ہوجاتا ہے۔

ایسے وائرسز جن کو ورثے میں فائدہ مند میوٹٰشن ملتی ہے وہ دیگر کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔

2020 کے دوران سائنسدانوں نے کورونا وائرس کی مختلف لائنیج یا اقسام دنیا کے مختلف حصوں میں دریافت کیں جن میں چند میوٹیشنز ہوئی تھیں۔

یہ ارتقائی عمل سست اور مستحکم تھا مگر سال کے اختتام پر منظرنامہ بدل گیا۔

دسمبر 2020 میں برطانوی سائنسدان انگلینڈ کورونا کی ایک نئی قسم کو دریافت کرکے دنگ رہ گئے جس میں ایسی 23 میوٹیشنز تھیں جو اوریجنل وائرس میں موجود نہیں تھیں۔

اس قسم کو بعد میں ایلفا کا نام دیا گیا اور جلد وہ دنیا بھر میں کورونا کی بالادست قسم گئی۔

2021 وہ سال تھا جس کے دوران کورونا کی مزید تیزی سے پھیلنے والی اقسام ابھر کر سامنے آئیں، جن میں کچھ تو مخصوص ممالک یا خطوں تک محدود رہیں مگر 20 منفرد میوٹیشنز والی قسم ڈیلٹا ایلفا کو پیچھے چھوڑ کر موسم گرما میں بالادست قسم بن گئی۔

اور پھر اومیکرون کی آمد ہوئی جس میں ڈیلٹا سے دگنا زیادہ میوٹیشنز موجود ہیں اور جیسے ہی اومیکرون کو دریافت کیا، اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر مارٹن اور ان کے ساتھیوں نے اس قسم کی 53 میوٹیشنز کا موازنہ دیگر کورونا وائرسز سے کرتے ہوئے بنیادی ارتقا کو پھر سے تیار کیا۔

اومیکرون میں موجود کچھ میوٹیشنز تو ڈیلٹا اور دیگر اقسام میں بھی تھیں، جن سے عندیہ ملا کہ وہ متعدد بار ابھری اور وائرس کا قدرتی انتخاب بن گئیں۔

مگر سائنسدانوں نے اومیکرون کی سطح پر موجود اسپائیک پروٹین کا جائزہ لیتے ہوئے ایک بالکل مختلف پیٹرن بھی دریافت کیا، جو اسے خلیات میں داخلے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

اومیکرون کے اسپائیک جین میں 30 میوٹیشنز ہوئیں اور محققین نے دریافت کیا کہ ان میں سے 13 دیگر کورونا وائرسز میں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں، یہاں تک کہ چمگادڑوں میں پائے جانے والے کورونا وائرسز میں بھی نظر نہیں آتیں۔

ان 13 میں سے کچھ کو تو سائنسدانوں نے لاکھوں کورونا وائرسز جینومز میں کبھی نہیں دیکھا تھا جن کا سیکونس وبا کے دوران تیار کیا گیا تھا۔

اگر ایک میوٹیشن وائرس کے لیے مفید ہو یا اسے ناکارہ بنادے تو سائنسدان توقع کرتے ہیں کہ وہ نمونوں میں زیادہ نظر آئے گی، مگر ایسا نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے کہ وہ بالکل ہی غائب ہوں، اگر ایسا ہو تو عموماً یہ نشانی ہوتی ہے کہ ایسی میوٹیشنز وائرس کے لیے نقصان دہ ہے، جو اسے نقول بنانے سے روکتی ہیں۔

مگر اومیکرون اس منطق کے برخلاف کامیاب ہوئی اور ڈاکٹر مارٹن کے مطابق 'اومیکرون ان میوٹیشنز سے مر نہیں رہی، بلکہ وہ تیزی سے پھیل رہی ہے اور ایسا ہم نے کبھی نہیں دیکھا'۔

ان 13 میوٹیشنز کو جو چیز سائنسدانوں کا توجہ کا مرکز بناتی ہیں وہ یہ ہے کہ اومیکرون کے اسپائیک پروٹین میں وہ ایسے ہی نہیں پھیلی ہوئیں بلکہ 3 مجموعوں کی شکل میں ہیں، ہر مجموعے نے پروٹین کے کچھ حصے کو بدلا ہے اور یہ تینوں حصے اومیکرون کو منفرد بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

2 مجموعوں نے نے سرے سے اسپائیک کو تبدیلی کیا ہے جس سے انسانی اینٹی باڈیز کے لیے وائرس سے چپکنا مشکل ہوا ہے، اس کے نتیجے میں اومیکرون ان افراد کو بھی بیمار کررہی ہے جن کے جسم میں ویکسینیشن یا سابقہ بیماری سے اینٹی باڈیز بن گئیں۔

میوٹیشنز کا تیسرا مجموعہ اسپائیک پروٹین کی بنیادی کے قریب ہے اور اس نے اس جگہ کو بدل دیا ہے جو وائرس کو میزبان خلیات کے اندر اپنے جینز ان ایبل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

عام طور پر کورونا وائرسز خلیات کی جھلی سے جڑنے کے بعد اپنے جینز کو خلیات کی گہرائی میں بھیجتے ہیں۔

مگر اومیکرون میں یہ عمل بالکل مختلف ہے اور وہ خلیے کی جھلی سے جڑنے کی بجائے پورا وائرس ہی ایک طرح کے خلیاتی سنک ہول میں گم ہوجاتا ہے۔

ایک بار جب وائرس وہاں پہنچتا ہے تو یہ کھلتا ہے اور اپنے جینز کو خارج کرتا ہے۔

بیماری کا یہ نیا راستہ ممکنہ وضاحت کرتا ہے کہ آخر اومیکرون سے ہونے والی بیماری کی شدت ڈیلٹا کے مقابلے میں کم کیوں ہے۔

نظام تنفس کے اوپری حصے کے خلیات اومیکرون کو ہڑپ کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، مگر پھیپھڑوں کی گہرائی میں جہاں کووڈ جان لیوا نقصان کا باعث بنتی ہے، اومیکرون زیادہ بہتر کارکردگی نہیں دکھا پاتا۔

اسپائیک پروٹین کے یہ 3 حصے اومیکرون کی کامیابی کے لیے اہم نظر آتے ہیں اور یہ اس لیے معمہ ہے کہ یہ 13 میوٹیشنز اومیکرون سے پہلے نہ ہونے کے برابر نظر آئیں۔

ڈاکٹر مارٹن اور ان کی ٹیم کا خیال ہے کہ یہ ایک ارتقائی عمل ہے جس میں میوٹیشنز اپنے لیے تو نقصان دہ ہوتی ہیں مگر اکٹھی ہونے پر فائدہ مند بن جاتی ہیں۔

اومیکرون شاید کسی طرح کے غیرمعمولی حالات میں 13 نقصان دہ میوٹیشنز کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کے قابل قسم بن گئی۔

ایک امکان تو یہ ہے کہ وہ کافی عرصے تک کسی ایسے فرد کے جسم کے اندر نشوونما پاتی رہی جس کا مدافعتی نظام کمزور تھا جیسے ایچ آئی وی کا کوئی مریض۔

کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کورونا وائرس کے لیے ارتقائی لیبارٹریز ثابت ہوتے ہیں اور کورونا وائرسز کی متعدد نسلوں کے میزبان بنتے ہیں۔

ٹیمپلا یونیورسٹی کے ماہر سرگئی پونڈ کے مطابق وہ ایک فرد میں پھنس گیا اور اچانک ایسے کام کرنے لگا جو عام طور پر وتے نہیں۔

کمزور مدافعتی نظام والے افراد کے جسم زیادہ اینٹی باڈیز نہیں بناپاتے تو بیشتر وائرسز ان میں پھلتے پھولتے ہیں اور جینیاتی طور پر تبدیل ہونے والے نئے وائرسز کے اندر اینٹی باڈیز کے خلاف مدافعت کی صلاحیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024