• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

فواد چوہدری کا عدلیہ کو اپنی ساکھ بہتر بنانے کا مشورہ

شائع January 31, 2022
فواد چوہدری نے سرینا عیسیٰ کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے عدلیہ کو مشورہ دیا—فائل فوٹو: پی آئی ڈی
فواد چوہدری نے سرینا عیسیٰ کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے عدلیہ کو مشورہ دیا—فائل فوٹو: پی آئی ڈی

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے عدلیہ پر زور دیا ہے کہ عدلیہ عالمی رینکنگز میں تیزی سے گرتی اپنی ساکھ کا جائزہ لے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ جب نئے چیف جسٹس حلف اٹھائیں تو انہیں اس چیلنج کا سامنا ہوگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال 2 فروری کو نئے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالیں گے، ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن 17 جنوری کو وزارت قانون نے جاری کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:وزیر قانون نے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کو 'تضاد کا حامل' قرار دے دیا

اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے سرینا عیسیٰ کیس کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر قانون قانون کے اٹھائے گئے سوال کو اجاگر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم کا سوال اہم ہے کہ اگر جج صاحبان اپنے بیوی بچوں کے اثاثوں کے ذمہ دار نہیں تو پھر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا احتساب کس طرح ممکن ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ کا عالمی رینکنگ میں اپنی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

فواد چوہدری نے بظاہر یہ بات گزشتہ برس ورلڈ جسٹس پروجیکٹ (ڈبلیو جے پی) کی جاری کردہ رپورٹ کے تناظر میں کہی جس کئے مطابق قانون کی حکمرانی کی فہرست میں پاکستان 139 ممالک میں سے 130 ویں درجے پر ہے۔

گزشتہ برس اکتوبر میں جاری ڈبلیو جے پی رول آف لا انڈیکس 2021 کے مطابق ملک جنوبی ایشیائی خطے میں 6 میں سے پانچویں نمبر پر ہے۔

مزید پڑھیں:سرینا عیسیٰ کو اہم معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا، نظرثانی کیس کا تحریری فیصلہ

وزیر اطلاعات کا یہ ٹوئٹ سپریم کورٹ کے سرینا عیسیٰ کیس میں تفصیلی فیصلے کے بعد سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ عدالت کی جانب سے 19 جون 2020 کو ٹیکس حکام کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیوی کے خلاف ان کے اور ان کے بچوں کے نام پر موجود غیر ملکی جائیدادوں کے الزامات کی تحقیقات کرنے اور رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کی ہدایت نے فطری انصاف کے تقاضوں کی خلاف ورزی کی۔

اپنے علیحدہ نوٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ وزیر قانون فروغ نسیم کی ملی بھگت سے اثاثہ برآمدگی یونٹ کے اس وقت کے چیئرمین شہزاد اکبر کی غیر قانونی ہدایات پر انکم ٹیکس آرڈیننس (آئی ٹی او) 2001 کی صریح خلاف ورزی کی گئی، انہوں نے ٹیکس ریٹرنز کی رازداری کی خلاف ورزی کی۔

سپریم کورٹ نے 4 کے مقابلے میں 6 کی اکثریت سے اپنے 19 جون کے اکثریتی حکم کو پلٹتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا تھا کیونکہ نئے حکم نامے نے اس فیصلے کو پلٹ دیا تھا جس نے ایف بی آر کو سرینا عیسیٰ کے خلاف برطانیہ میں تین جائیدادیں رکھنے پر جائزہ لینے اور ٹیکس کی ذمہ داری عائد کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:'قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو عہدوں پر برقرار رکھنا گڈ گورننس کی نفی ہے'

تفصیلی فیصلے کے مطابق چونکہ ججz کے پاس وضاحت، جواب دینے یا اپنے دفاع کے لیے کوئی عوامی پلیٹ فارم نہیں ہے، اس لیے ججوں کو بدنام کرنے کی کوئی بھی کوشش عدالتی ادارے پر عوامی اعتماد اور عوام کے اعتماد کو مجروح کرتی ہے۔

تفصیلی فیصلے پر ایک ٹاک شو میں تبصرہ کرتے ہوئے فروغ نسیم نے اسے 'تضاد کا حامل' قرار دیتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ اگر ججز اور ان کے اہل خانہ سے پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی تو یہ دہرا معیار کہلائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے سے سرکاری عہدوں پر فائز افراد احتساب عمل کے حوالے سے دباؤ اور خوف کا شکار ہیں، یہ فیصلے قوم کے لیے مثال ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024