سرمایہ کاری فراڈ میں ملوث ملزم کو نیب قانون کے تحت سزا دی جا سکتی ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کمپنیز ایکٹ 2017 اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) ایکٹ 1997، قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) پر فوقیت نہیں رکھتے جب تک کہ عوام کو دھوکا دینے یا بے ایمانی کے ساتھ بڑے پیمانے پر اکسانے کے جرائم ان قوانین کے تحت بھی قابل سزا جرم نہ ہوں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت کی جانب سے یہ ریمارکس اس وقت سامنے آئے جب عدالت بی 4 یو انویسٹمنٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) سیف الرحمٰن خان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ دے رہی تھی، نیب کی تحقیقات کے مطابق اس میں شامل افراد کو تقریباً 10 ارب 86 کروڑ روپے سے محروم کیا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 30 اگست 2021 کو درخواست گزار کو دی گئی عبوری ضمانت واپس لے لی۔
یہ بھی پڑھیں:ایف آئی اے کا 20کروڑ روپے کے فراڈ میں ملوث 2 مشتبہ ملزمان کی گرفتار کا دعویٰ
فیصلے کے اگلے ہی روز قومی احتساب بیورو (نیب) کے حکام ملزم کو ڈرامائی انداز میں عدالت عظمیٰ کی پارکنگ سے بیورو کی گاڑیوں میں بٹھا کر لے گئے۔
سیف الرحمٰن خان پر بی 4 یو گلوبل کا کاروباری نام استعمال کرنے کے الزامات ہیں جسے بعد میں نیب کی انکوائری کے دوران ایس آر گروپ سے تبدیل کر دیا گیا تھا، ملزم نے مبینہ طور پر اشتہارات اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے عام لوگوں اور سرمایہ کاروں کو بی4 یو گلوبل میں 7 سے 20 فیصد ماہانہ کے غیر حقیقی منافع (تقریباً 84 سے 240 فیصد سالانہ) کا وعدہ کر کے لالچ دیا اور پیسہ لگانے کے لیے آمادہ کیا۔
نیب کا دعوی ہے کہ نیب بی 4 یو گلوبل کی جانب سے سرمایہ کاری پر بڑے منافع کا اصل میں سرمایہ کاری کا بڑا فراڈ تھا جس کا مقصد عوام کو بڑے پیمانے پر دھوکا دینا اور انہیں ان کی رقم سے محروم کرنا تھا۔
مزید پڑھیں: ایف آئی اے کی کارروائی، آن لائن فراڈ میں ملوث 3 نائجیرین شہری گرفتار
نیب کے مطابق درخواست گزار نے عوام کو پونزی اسکیم کی طرف راغب کیا، رقم کو مخصوص افراد، رجسٹرڈ کمپنیوں اور غیر رجسٹرڈ کاروباروں کے ناموں پر مختلف کھاتوں میں جمع کرایا جبکہ یہ سب اس کے اپنے کنٹرول میں اور زیر انتظام تھا۔
جسٹس سید منصور علی شاہ کی طرف سے تحریر کردہ فیصلے میں وضاحت کی گئی کہ نیب آرڈیننس پر ایس ای سی پی یا کمپنیز ایکٹ کو ترجیح دینے کا سوال اس وقت تک پیدا نہیں ہوتا جب تک کہ یہ ظاہر نہ ہوجائے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 415 کے تحت دھوکے، عوام کو بے ایمانی سے کوئی پراپرٹی، رقم یا قابل قدر ضمانت دینے پر راغب کرنے اور بھروسے توڑنے کا مجرمانہ فعل بھی ان قوانین کے تحت قابل سزا ہے جیسے یہ جرائم نیب آرڈیننس کے تحت قابل سزا جرم ہیں۔
درخواست گزار کا اس بات سے انکار کرتے ہوئے کہ اس نے کسی بھی شخص سے سرمایہ کاری کے لیے کوئی رقم وصول کی ہے کہنا تھا کہ ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں نے سرمایہ کاروں سے رقم وصول کی تھی، جس کی وجہ سے یہ معاملہ ایس ای سی پی کے خصوصی دائرہ اختیار میں آتا ہے۔