توہین عدالت کیس: رانا شمیم کو تحریری جواب جمع کرانے کیلئے 4 اپریل تک کی مہلت
اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کو بیانِ حلفی سے متعلق تحریری جواب جمع کرانے کے لیے 4 اپریل تک کی آخری مہلت دے دی۔
رانا شمیم کے خلاف بیان حلفی پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔
سماعت میں رانا شمیم اور ان کے وکیل کی جانب سے کیس ملتوی کرنے کی تحریری درخواست دائر کی گئی جس کے ساتھ لطیف آفریدی کا میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی منسلک تھا۔
یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: رانا شمیم کو تحریری بیان جمع کرانے کی ہدایت
درخواست میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ میرے وکیل بیماری اور بیڈ ریسٹ کی وجہ سے جواب کا ڈرافٹ نہیں دیکھ سکے، میں نے 20 جنوری کے آرڈر کے خلاف اپیل دائر کی ہے جو ابھی مقرر نہیں ہوئی۔
درخواست میں استدعا کئی گئی کہ جواب جمع کرانے کے لیے مزید وقت دیا جائے، ساتھ ہی کیس ملتوی کرنے کی بھی استدعا کی۔
سماعت میں چیف جسٹس ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ رانا صاحب، کیا آپ نے اپنا تحریری جواب جمع کروا دیا ہے؟
جس پر رانا شمیم نے کہا کہ میں نے بیان حلفی وکیل کو دیا ہے ان کے جائزہ لینے کے بعد جمع کروا دوں گا، ساتھ ہی انہوں نے بیان حلفی جمع کرانے کے لیے 3 ہفتوں کا وقت مانگ لیا۔
مزید پڑھیں: بیان حلفی کیس: گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم پر فرد جرم عائد
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ایک لا افسر رہے ہیں، عدالت کے ساتھ ایسا نہ کریں، آپ نے بہت سنجیدہ الزامات لگائے جن کا آپ دفاع نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس کا رانا شمیم سے مزید کہنا تھا کہ آپ کارروائی آگے بڑھائیں یا پھر یہ عدالت کارروائی کرے گی، اس عدالت نے آپ کو پورا موقع دیا۔
رانا شمیم نے کہا کہ میں نے بیان حلفی لیک نہیں کیا، مجھے نہیں معلوم کہ انصار عباسی کو کیسے ملا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے بیان حلفی لیک کرنے والوں کو نوٹس بھی نہیں بھیجا، جس پر رانا شمیم نے کہا کہ مجھے اگر معلوم ہو جائے کہ کس نے لیک کیا تو ان کو نوٹس بھیج دوں گا۔
یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: رانا شمیم نے فردِ جرم کو چیلنج کردیا
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے اب بتانا ہے کہ بیان حلفی کس طرح لیک ہوا، اگر آپ عدالتوں کے ساتھ اس طرح کریں گے تو یہ مناسب نہیں ہوگا، اس عدالت کا کونسا آرڈر ہے جو آپ کے بیان حلفی کی تائید کرتا ہے۔
رانا شمیم نے کہا کہ میرے وکیل بیمار ہیں، اگر تندرست نہیں ہوتے تو وکیل تبدیل کر لوں گا۔
اٹارنی جنرل نے اعتراض کیا کہ انٹراکورٹ اپیل دائر کر سکتے ہیں تو بیان حلفی کیوں جمع نہیں کروا سکتے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ جس اخبار نے یہ خبر شائع کی کیا آپ نے اسے نوٹس بھیجا، چیلنج کیا؟
جس پر سابق چیف جج نے آگاہ کیا کہ میرے وکیل نے مجھے روکا ہے، اگر معلوم نہیں ہوتا کہ بیان حلفی کیسے لیک ہوا تو اخبار کو نوٹس بھیجوں گا۔
بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے رانا شمیم کو بیان حلفی جمع کرانے کے لیے 4 اپریل تک کا آخری موقع دے دیا۔
کیس کا پس منظر
رانا شمیم نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار پر الزام عائد کیا تھا کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل انہوں نے مسلم لیگ کی قیادت کی ضمانتیں ملی بھگت سے مسترد کی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: رانا شمیم نے سربمہر بیانِ حلفی عدالت میں جمع کرا دیا، وکیل
یہ مقدمہ گزشتہ سال انگریزی روزنامہ میں رانا شمیم کے حلف نامے پر مبنی خبر شائع ہونے سے متعلق ہے، بیان حلفی میں الزام لگایا گیا تھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو فون کیا تھا اور ان کا کہنا تھا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 2018 کے عام انتخابات تک جیل سے رہا نہ کیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رپورٹ کا نوٹس لیا تھا اور بعد ازاں توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تھی، مقدمے میں رانا شمیم کے علاوہ صحافی انصار عباسی، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔
رانا شمیم پر 20 جنوری کو اس مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافیوں اور میر شکیل الرحمٰن کے خلاف الزامات طے کرنے کو مؤخر کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں: توہینِ عدالت کیس: بیانِ حلفی کا متن درست ہے، شائع کرنے کیلئے نہیں دیا، وکیل رانا شمیم
عدالت نے ان پر تین سال تک خاموشی اختیار کرنے کا الزام بھی عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ گزشتہ سال نومبر میں حلف نامے پر عمل درآمد کا مقصد عدالت کے وقار کو مجروح، نظام انصاف کی تضحیک اور انصاف کے راہ کو بھٹکانے کی کوشش کی تھی۔
اس سماعت کے دوران عدالت نے رانا شمیم کو اپنے بیان حلفی کے بارے میں تحریری بیان جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔