• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

وزیراعظم کو یورپی یونین کےخلاف عوامی سطح پر ردعمل نہیں دینا چاہیے تھا، شوکت ترین

شائع March 9, 2022
وزیرخزانہ شوکت ترین اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے —فوٹو: ڈان نیوز
وزیرخزانہ شوکت ترین اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے —فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کو یورپی یونین کے خلاف عوامی طور پر ردعمل نہیں دینا چاہیے تھا تاہم یہ وزیر اعظم کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اپنے ملک اور اس کے وقار کو کس طرح محفوظ کرنا ہے۔

گزشتہ ہفتے وہاڑی میں ایک عوامی جلسے کے دوران خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے سوال کیا تھا کہ کیا یورپی یونین نے مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر بھارت سے سوال کیا تھا۔

وزیر اعظم اپنی تقریر کے دوران یورپی یونین کے 23 سفرا کے لکھے گئے خط کا حوالہ دے رہے تھے، جس میں پاکستان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ روس کے یوکرین پر حملے کے اقدامات کی مذمت میں ان کے ساتھ شامل ہو اور اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے آواز اٹھائے۔

اس خط پر اعتراض کرتے ہوئے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ ہم نے اس کا نوٹس لیا ہے اور اس کے بعد سفرا کے ایک گروپ کے ساتھ ملاقات میں ہم نے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا، کیونکہ یہ وہ طریقہ کار نہیں ہے جس طرح سے سفارت کاری کی جانی چاہیے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کو اپنی حالیہ تقریر میں یورپی یونین کے خلاف عوامی طور پر ردعمل کا اظہار نہیں کرنا چاہیے تھا، وزیراعظم نے اپنی تقریر میں یورپی یونین کے سفرا کو ان کے غیر سفارتی بیان پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس میں پاکستان سے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے کو کہا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف پروگرام ختم کرنا اب ممکن نہیں، شوکت ترین

شوکت ترین نے کہا کہ وزیراعظم نے سوال کیا تھا کہ کیا آپ میں سے کسی نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کیے یا اس کے غیر قانونی اقدامات پر اعتراض کیا ہے؟ وزیر اعظم نے یورپی یونین کے نمائندوں سے پوچھا، کیا ہم غلام ہیں کہ آپ کی مرضی کے مطابق کام کریں۔

وزیر اعظم کے یورپی یونین کے ممالک کے اقدام پر تبصرے سے پاکستان کی تجارت پر منفی اثر پڑنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ 'مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ یورپی ممالک ہمارے ساتھ کیا کریں گے'۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اقتصادی سروے: معیشت کے استحکام کے بجائے اب نمو پر توجہ دینی ہے، وزیر خزانہ

وزیر خزانہ نے کہا کہ یورپی یونین کے نمائندوں نے پاکستان کو ایک خط بھیجا تھا جس میں اس سے روس کے خلاف ووٹ دینے کا کہا گیا تھا، جس پر ہمارے وزیر اعظم نے صرف اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ یورپی یونین، بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر خاموش رہا اور پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صرف ووٹنگ سے گریز کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے صرف عوامی جلسے میں اس پر اپنا ردعمل دیا جو شاید نہیں ہونا چاہیے تھا۔

وزیر اعظم عمران خان کے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ یورپی یونین کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ پاکستان کیا کرے اور یہ وزیراعظم کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اپنے ملک اور اس کے وقار کو کس طرح محفوظ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ایک آزاد خارجہ پالیسی ہے جس کے مطابق کوئی بھی ملک دوسرے کی خود مختاری کی خلاف ورزی نہ کرے اور تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے، انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے صرف وہی بات کی جو ضروری تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مشیر خزانہ شوکت ترین خیبر پختونخوا سے سینیٹر منتخب

'پیٹرول سبسڈی پر آئی ایم ایف کو تحفظات نہیں ہونے چاہئیں'

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اعتراضات سے متعلق سوال کے جواب میں شوکت ترین نے کہا کہ ہم پیٹرولیم مصنوعات پر 104 ارب روپے کی سبسڈی اپنے بجٹ سے دے رہے ہیں جس پر آئی ایم ایف کو تحفظات نہیں ہونے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نہ تو اپنے مالیاتی خسارے میں اضافہ کر رہا ہے اور نہ ہی عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوئی قرضہ لے رہا ہے، حکومت نے محصولات میں بہتری کی وجہ سے سبسڈی کا اعلان کیا۔

وزیر خزانہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پیکج کے لیے حکومت نے احساس پروگرام کی مختص رقم اور کووڈ 19 بجٹ سے کچھ رقم نکالی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سرکاری اداروں سے منافع بھی حاصل کیا تھا جبکہ بہت سے ایسے سیکٹرز تھے جہاں سے حکومت نے امدادی پیکج بنانے کے لیے پیسے جمع کیے، مجھے نہیں لگتا کہ آئی ایم ایف کو اس سے کوئی مسئلہ ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: سینیٹر ایوب آفریدی مستعفی، شوکت ترین کے سینیٹر بننے کی راہ ہموار

ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں سیاسی عدم استحکام کے خدشات کے پیش نظر ایسے فیصلوں سے آگاہ کرے۔

شوکت ترین نے کہا کہ جب تک صنعت ترقی نہیں کرے گی ملک ترقی نہیں کر سکتا، ہماری حکومت کی جانب سے صنعتوں کی بحالی کے لیے پیکج دیا گیا، پیکج کا مقصد بیمار صنعتوں کی بحالی اور مضبوطی ہے، حکومت نے پیٹرول کی قیمت کو کم کیا اور سیلز ٹیکس کو صفر کیا۔

انہوں نے بتایا کہ عالمی سرمایہ کاروں کی تنظیم نے کہا ہے کہ ہم اپنے خطے میں 6 ممالک سے بہتر ہیں جبکہ 2003 میں جو سروے کیا گیا تھا اس کے مطابق ہم 3 ممالک سے بہتر تھے، ملک میں سرمایہ کاری اور کاروبار کرنے کے لیے آسانیاں فراہم کی گئی ہیں، پاکستان کے امیج اور تاثر کا بڑا مسئلہ ہے، ہمیں اپنا بہتر امیج پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کے سیاسی حالات اور عالمی حالات کے باعث بہت سی اچھی چیزیں نمایاں نہیں ہو پاتیں، ایک بہت اہم پیش رفت جس پر بہت کم توجہ دی گئی وہ ہمارے تجارتی خسارے کا کم ہونا ہے، یہ بہت اہم خبر ہے کہ تجارتی خسارہ گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 28 فیصد اور اس گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 35 فیصد کم ہوا ہے جس کے بعد ہمارا تجارتی خسارہ کم ہو کر 60 کروڑ ڈالر تک کم ہوگیا ہے۔

مہنگائی سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ جنوری کے دوران مہنگائی کی شرح 13 فیصد کے قریب رہی جو اس مہینے کم ہو کر 12.2 فیصد ہوگئی جبکہ اس میں فصل کی تباہی کے باعث ٹماٹر کی بڑھتی قیمتیں بھی شامل ہیں، اگر مہنگائی کی شرح سے ٹماٹر کی قیمتوں کو نکال دیں تو یہ شرح 10 فیصد کے قریب بنتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا شوکت ترین کو سینیٹر منتخب کرانے کا منصوبہ

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے مقامی سطح پر قیمتوں پر قابو پایا ہوا ہے جبکہ عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی کے باعث دنیا بھر میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے امریکی صدر نے بھی اپنے عوام کو کہا ہے کہ کچھ عرصے تک مہنگائی برداشت کرنی پڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ آئی ٹی کا شعبہ ملک کے لیے بہت اہم ہے، آئی ٹی سیکٹر ملک کی برآمدات کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے، اس لیے ہم نے اس شعبے کو ترقی دینے کے لیے کئی مراعات دیں، ہمیں امید ہے کہ ہماری حکومت کے اقدامات سے آئی ٹی کے شعبے میں ملک کی برآمدات میں اضافہ ہوگا۔

شوکت ترین نے وزیراعظم کے دورۂ چین سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے دورۂ چین کے دوران 4 چیزوں پر بات کی، دورے کے دوران سی پیک میں حائل رکاوٹوں سے متعلق بات چیت کی گئی، ہم نے اس کے علاوہ زراعت سے متعلق بات چیت کی، ہم نے بات کی کہ زرعی پیداوار بڑھانے کے سلسلے میں ہماری مدد کی جائے، اس کے علاوہ آئی ٹی کے شعبے میں تعاون کے سلسلے میں بھی بات چیت کی گئی، باہمی تجارت سے متعلق بھی اہم تبادلہ خیال کیا۔

انہوں نے بتایا کہ دورۂ چین کے دوران وزیراعظم سے چینی صدر ملے، اس کے ساتھ ساتھ چین کی 22 بڑی کمپنیوں کے نمائندوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور اربوں ڈالر کے منصوبوں پر بات چیت ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024