بلاگر کے قتل کی سازش میں ملوث ملزم کو عمر قید کی سزا
ہالینڈ میں مقیم پاکستانی بلاگر احمد وقاص گورایا کے قتل کی سازش میں ملوث 31 سالہ برطانوی شخص محمد گوہر خان کو برطانوی عدالت نے عمر قید کی سزا سنادی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے فیصلے میں کہا کہ گوہر خان کو پیرول کے لیے درخواست دینے کا اہل ہونے سے پہلے 13 سال سزا کاٹنی ہو گی، حراست میں گزارے گئے دن ان کی سزا میں شمار ہوں گے۔
برطانیہ کے فوجداری قانون ایکٹ 1977 کے سیکشن ون (1) کے تحت قتل کی سازش ایک جرم ہے، اگر جرم ثابت ہو جائے تو مجرم کو چند سال سے لے کر زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلاگر کے قتل کی سازش کیس میں استغاثہ کی ملزم پر جرح
رواں سال جنوری میں ایک جیوری نے متفقہ فیصلہ دیتے ہوئے گوہر خان کو روٹرڈیم میں خود ساختہ جلاوطن بلاگر وقاص گورایا کو قتل کرنے کی سازش کا قصوروار پایا تھا۔
گوہر خان پر گزشتہ سال جون میں وقاص گورایا کے قتل کی سازش کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
وقاص گورایا ایک سماجی کارکن ہیں جنہوں نے 2017 میں اسلام آباد میں اپنے اور 5 دیگر بلاگرز کے اغوا ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ دیا تھا۔
مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ نے بتایا کہ گوہر خان کو بلاگر وقاص گورایا کے قتل کا کنٹریکٹ پاکستان میں مقیم کچھ لوگوں نے دیا۔
مزید پڑھیں: 'بلاگر کے قتل کی مبینہ سازش میں شامل مڈل مین مزید قتل کرانا چاہتا تھا'
استغاثہ نے کہا کہ گوہر خان نے احمد وقاص گورایا کو قتل کرنے کی سازش کے تحت گزشتہ سال روٹرڈیم کا سفر کیا، انہوں نے وقاص گورایا کے گھر کے باہر جاسوسی شروع کی اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک آلہ قتل بھی خریدا۔
وقاص گورایا کے قتل کے بدلے گوہر خان کو بطور معاوضہ ایک لاکھ پاؤنڈ کی پیشکش کی گئی تھی۔
استغاثہ نے کہا کہ گوہر خان اس وقت بھاری قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے جس کی ادائیگی کے لیے ان کے پاس کا کوئی واضح ذریعہ موجود نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بلاگر کے قتل کی سازش کیس میں سماعت مکمل
استغاثہ نے جیوری کو بتایا کہ گوہر خان اس قتل کے ذریعے پیسہ کمانے اور مستقبل میں ایسے مزید حملے کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
جیوری کو یہ بھی بتایا گیا کہ کس طرح پاکستان میں مقیم مڈل مین مزمل نے مبینہ طور پر 2021 میں گوہر خان کو اس کام کے لیے 80 ہزار پاؤنڈ کی ادائیگی کی پیشکش کے ساتھ رابطہ کیا تھا اور اسے 20 ہزار پاؤنڈ اپنے کمیشن کے بارے میں بھی بتایا تھا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ مزمل کس کے لیے کام کر رہا تھا لیکن اس بات کے ثبوت ہیں کہ 5 ہزار پاؤنڈ پاکستانی بینک اکاؤنٹ میں ادا کیے گئے اور لندن میں ہنڈی ٹرانسفر کے ذریعے وصول کیے گئے۔