تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئے قائدِ ایوان کا انتخاب کیسے ہوگا؟
قومی اسمبلی میں وزیرِاعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کا سوال بظاہر سادہ اس لیے ہے کہ آئین، قوانین اور قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط اس حوالے سے کافی واضح ہیں۔
ہم اس تحریر کو 2 حصوں میں تقسیم کریں گے۔ پہلے حصے میں ہم تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق نئے وزیرِاعظم کے انتخاب کے طریقہ کار کو واضح کریں گے۔ اس میں
- اسمبلی کی کارروائی،
- کاغذات نامزدگی،
- وزارتِ عظمیٰ کے امیدواران کے لیے رکھی گئی شرائط،
- کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال، اسپیکر کے اختیارات،
- ووٹنگ اور
- اعتماد کے ووٹ
تک کی بات کریں گے۔
تحریر کا دوسرا حصہ موجودہ سیاسی صورتحال اور کچھ قانونی ابہام پر مشتمل ہوگا جس میں ہم نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے پر پائے جانے والے خلا اور ماضی کی ایسی مثالوں کا ذکر کریں گے۔
وزیرِاعظم کے انتخاب کی نگرانی اسپیکر کے ذمہ ہوتی ہے لیکن موجودہ اسپیکر کے رویے کو حزبِ اختلاف تنقید کا نشانہ ہی نہیں بنا رہی بلکہ ان کو آئین شکنی کا مرتکب بھی قرار دے رہی ہے۔
پہلا حصہ
اسمبلی کی کارروائی
آئین کی شق 91 (2) کے تحت قومی اسمبلی کا اجلاس عام انتخابات کے 21ویں دن ہوگا تاوقتیکہ صدرِ مملکت اس سے پہلے اجلاس طلب نہ کرے۔ آئین کی شق 54 (1) صدر کے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے اختیارات کے حوالے سے ہے کہ صدر جب مناسب سمجھے گا قومی اسمبلی، سینیٹ یا دونوں ایوانوں کا اجلاس طلب کرسکتا ہے، اس میں صدر کے پاس وقت اور اجلاس کے مقام کے تعین کا بھی اختیار حاصل ہے۔
یہ تو صدر کے اختیارات اور عام انتخابات کے بعد صدر کی طرف سے اجلاس بلانے کا معاملہ ہے لیکن تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اجلاس کا کیا ہوگا؟ یہ ایک سوال اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اس صورت میں بھی عام انتخابات کے بعد کی طرح نئے وزیرِاعظم کا انتخاب ہوتا ہے اور اسی لیے اس موقع پر آئین کے آرٹیکل 91 کا حوالہ دیا جاتا ہے جس کی ذیلی شق 4 اور 5 میں اس کا طریقہ کار بھی موجود ہے۔ شق 91 (4) میں یہ ہے کہ ’وزیرِاعظم کو قومی اسمبلی کے کُل اراکین کی تعداد کی اکثریت کے ذریعے منتخب کیا جائے گا‘۔
اسی شق میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وزیرِاعظم کے انتخاب کے دوران اگر کوئی ایک امیدوار پہلی رائے شماری میں مذکورہ اکثریت حاصل نہ کرسکے تو پہلے رائے شماری میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے 2 امیدواران کے مابین مقابلہ ہوگا اور دوبارہ رائے شماری ہوگی، اس کے نتیجے میں ایوان میں موجود اراکین میں سے اکثریت حاصل کرنے والے امیدوار کو منتخب وزیرِاعظم سمجھا جائے گا اور اسپیکر رولنگ کے ذریعے اس کا اعلان کریں گے۔ اسمبلی قواعد میں اس کی تفصیل موجود ہے جس کا آگے ذکر کیا جائے گا۔
عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وزیرِاعظم اپنے عہدے سے سبکدوش ہوجاتے ہیں اور ملک میں نئے وزیرِاعظم کا انتخاب ایک آئینی تقاضا ہے۔ اس صورت میں قومی اسمبلی سے نئے قائدِ ایوان کو منتخب کرنے کا طریقہ کار بھی وہی ہوگا جو عام انتخابات کے بعد اختیار کیا جاتا ہے، اس پر قومی اسمبلی کے رولز بھی واضح ہیں۔
قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے رول 38 کے مطابق وزیرِاعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اسپیکر قومی اسمبلی فوری طور پر صدرِ مملکت کو تحریری طور پر نتیجے سے آگاہ کریں گے اور سیکریٹری اسمبلی سرکاری گزٹ میں اس اعلان کو شائع کروانے کے لیے اس کا نوٹیفیکیشن جاری کریں گے۔
وزارتِ عظمیٰ کے امیدواران کے لیے رکھی گئی شرائط
وزیرِاعظم کے عہدے سے ہٹ جانے کے بعد قومی اسمبلی میں نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کا عمل شروع ہوگا۔ قومی اسمبلی کے قاعدہ نمبر 32 میں درج ہے کہ ’۔۔۔وزیرِاعظم کا عہدہ کسی بھی وجہ سے خالی ہوجائے تو قومی اسمبلی باقی تمام کارروائی کو چھوڑ کر نئے وزیرِاعظم کا انتخاب کرے گی‘۔
اسی قاعدے میں وزیرِاعظم کے عہدے کے لیے امیدوار کا مسلمان ہونا لازمی شرط ہے۔ اسمبلی کے قواعد و ضوابط کی شق 32 سے لے کر 36 تک وزیرِاعظم کے انتخاب کا طریقہ کار دیا گیا ہے۔
کاغذات نامزدگی
وزیرِاعظم کے انتخاب کا پہلا مرحلہ نامزدگی فارم کے حصول کا ہے جو اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری ہوں گے، اراکین کی طرف سے کاغذات نامزدگی طلب کیے جانے پر قومی اسمبلی کا عملہ یہ کاغذات اراکین کو فراہم کرے گا۔ اسمبلی کا کوئی ایک رکن کسی بھی رکن اسمبلی کا نام وزیرِاعظم کے امیدوار کے طور پر تجویز کرے گا جبکہ دوسرا رکن اس امیدوار کا تائید کنندہ ہوگا۔
ہر امیدوار کے لیے الگ الگ نامزدگی فارم جمع ہوں گے۔ ایک امیدوار کے لیے ایک سے زیادہ نامزدگی فارم بھی جمع کروائے جاسکتے ہیں بشرطیکہ ہر نامزدگی فارم پر تجویز و تائید کنندہ اراکین مختلف ہوں۔ اسمبلی قواعد کے مطابق وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار، تجویز کنندہ یا تائید کنندہ انتخاب کے دن 2 بجے تک کاغذات نامزدگی اسمبلی سیکریٹری کے پاس جمع کروا سکتے ہیں۔
کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال، اسپیکر کے اختیارات
اس کے بعد اسپیکر کی طرف سے کاغذات نامزدگی کی پڑتال کا مرحلہ شروع ہوتا ہے، اسپیکر امیدوار یا اس کے تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کی موجودگی میں نامزدگی کاغذات کی پڑتال کرے گا۔ اسپیکر کاغذات مسترد بھی کرسکتا ہے اگر وہ سمجھے کہ امیدوار اسمبلی کا رکن نہیں یا قومی اسمبلی کے قاعدہ 32 میں دی گئی شرائط پر پورا نہیں اترتا یا امیدوار کے تجویز کنندہ یا تائید کنندہ کے دستخط اصلی نہیں۔
لیکن ایک نامزدگی فارم کے مسترد کرنے کا اسی امیدوار کے دوسرے نامزدگی فارم پر اثر نہیں پڑے گا، دوسرے نامزدگی فارم کی پڑتال بھی اسی پیمانے پر ہوگی۔ قواعد کے مطابق اسپیکر کسی ایسی غلطی کی بنیاد پر کوئی نامزدگی فارم مسترد نہیں کرسکتا جسے فوری طور پر درست نہ کیا جاسکے۔
رولز کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی ہر نامزدگی فارم کو قبول کرنے یا مسترد کرنے کی توثیق کرے گا۔ اگر کوئی نامزدگی فارم مسترد ہوتا ہے تو اسپیکر کو اسے مسترد کرنے کی تفصیلی وجوہات بیان کرنا پڑیں گی۔ نامزدگی فارم کو مسترد کرنے یا منظور کرنے کا اسپیکر کا فیصلہ حتمی تصور ہوگا۔
رولز کے مطابق وزیرِاعظم کے عہدے پر کوئی بھی امیدوار انتخاب سے قبل کسی بھی وقت اپنے نامزدگی فارم واپس لے سکتا ہے۔ کاغذات نامزدگی پر حتمی فیصلے اور اعلان کے بعد انتخاب کا عمل شروع ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی میں وزیرِاعظم کا انتخاب اوپن ووٹنگ کے ذریعے ہوتا ہے۔
ووٹنگ کا مرحلہ
ووٹنگ شروع کرنے سے قبل اسپیکر اسمبلی میں وزیرِاعظم کے انتخاب میں حصہ لینے والے اہل امیدواران کے ناموں کا اعلان کرے گا۔ اس کے بعد وہ انتخابی عمل شروع کروانے کے لیے 5 منٹ تک ایوان میں لگی گھنٹیاں بجانے کی ہدایات دے گا تاکہ لابیز یا باہر موجود اراکین ایوان کے اندر آجائیں اور ان کی حاضری کو یقینی بنایا جاسکے۔
گھنٹیاں بند ہونے کے ساتھ لابیز کے دروازوں کو بند کردیا جاتا ہے تاکہ اس دوران کوئی رکن باہر نہ جاسکے اور نہ کوئی رکن باہر سے اندر داخل ہوسکے۔ اگر وزیرِاعظم کے انتخاب کے لیے ایک ہی امیدوار میدان میں ہو اور اسے اسمبلی ممبران کی اکثریت حاصل ہو تو اسپیکر اس کے بلا مقابلہ کامیابی کا اعلان کرے گا۔
اگر 2 یا زائد امیدواران ہوں تو ان کے انتخابات کے لیے اسپیکر ارکان کو ایوان کی لابیز میں جاکر ووٹ دینے کی ہدایات دے گا۔ ہر امیدوار کے لیے الگ الگ لابیز کا اعلان کیا جائے گا۔ اس کے بعد اراکین اسمبلی اپنے پسندیدہ امیدوار کے لیے مختص کی گئی لابی میں جاکر اپنے اس امیدوار کو اپنے نام کے ساتھ نشان لگا کر ووٹ دیں گے۔ اس مرحلے میں ڈیڑھ سے 2 گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے۔
ووٹوں کی گنتی اور ضرورت پڑنے پر دوبارہ ووٹنگ
ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد گنتی کا عمل شروع ہوتا ہے جس کے لیے قومی اسمبلی کے اسٹاف کو فرائض پر مامور کیا جاتا ہے۔ گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد اسپیکر کامیاب امیدوار اور اس کا مقابلہ کرنے والے امیدوار کو ملے ووٹوں کا ایوان کے اندر اعلان کرے گا۔ اسپیکر اکثریتی ووٹ لینے والے امیدوار کی کامیابی اور وزیرِاعظم منتخب ہونے کا اعلان بھی رولنگ کے ذریعے کرے گا۔
اگر وزارتِ عظمٰی کے امیدواران 2 یا اس سے زائد ہوں اور کوئی بھی امیدوار پہلے مرحلے میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے ان میں سے پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے مابین دوبارہ ووٹنگ کروائی جائے گی۔ اس صورت میں جس ایک امیدوار نے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہوں گے اسپیکر اسے وزیرِاعظم ڈکلئیر کرنے کی رولنگ دے گا۔
اگر 2 امیدواران کے مابین مقابلہ برابر ہوتا ہے اور دونوں برابر ووٹ حاصل کرتے ہیں تو اس صورت میں بھی اسپیکر تب تک بار بار ووٹنگ کروائے گا جب تک ان میں سے کسی ایک کو ایک ووٹ کی عددی برتری حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے بعد اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کے منتخب ہونے کا اعلان کیا جائے گا۔
کامیاب امیدوار کا اعلان اور اعتماد کا ووٹ
اگر امیدوار بھی ایک ہو اور وہ بھی اسمبلی اراکین کی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے تو اسپیکر وزیرِاعظم کے انتخاب کی پوری کارروائی دوبارہ سے شروع کرنے کا اعلان کرے گا۔ دوسری صورت میں کامیاب امیدوار کا اعلان بطور وزیرِاعظم کیا جائے گا اور اگر اسپیکر چاہے تو اسی دن وزیرِاعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا بھی کہہ سکتا ہے، یوں اراکین شو آف ہینڈ یعنی اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر وزیرِاعظم کو اعتماد کا ووٹ دیں گے۔
اس کامیابی کے بعد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کامیاب امیدوار اور منتخب وزیرِاعظم کا نوٹیفیکیشن جاری کرے گا۔ گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد صدرِ مملکت نئے منتخب وزیرِاعظم سے عہدے کا حلف لیں گے جس کے بعد وہ وزیرِاعظم ہاؤس جاکر اپنے حکومتی امور سنبھال سکیں گے۔
اب موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ نئے وزیرِاعظم کا انتخاب قومی اسمبلی کے رواں اجلاس میں ہوگا یا اسپیکر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیں گے اور پھر معاملہ صدرِ مملکت کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ جب اجلاس بلائیں اور پھر اس میں نئے قائد ایوان کا انتخاب ہو۔
اس سلسلے میں آئینی امور کے ماہر بیرسٹر ضمیر گھمرو نے بتایا کہ ’عدم اعتماد تحریک کامیاب ہونے کی صورت میں وزیرِاعظم پاکستان اور کابینہ کے تمام وزرا کے عہدے خالی تصور ہوں گے۔ اس کے بعد قومی اسمبلی کو اور کوئی کام نہیں کرنا، اسمبلی کا پہلا کام نئے قائدِ ایوان کا انتخاب ہے۔ نئے وزیرِاعظم کا انتخاب موجودہ اجلاس میں بھی ہوسکتا ہے اور اگر عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد اسپیکر اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیتے ہیں (جو عین ممکن ہے) تو صدرِ مملکت فوری طور پر نیا اجلاس بلانے کے پابند ہیں جس میں پہلا کام نئے وزیرِاعظم کا انتخاب ہی ہوگا‘۔
دوسرا حصہ
ماضی کی مثالیں
چونکہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد والی صورتحال کبھی پیش نہیں آئی اس لیے اسمبلی اجلاس بلانے کے حوالے سے کوئی پرانی نظیر بھی ہمارے سامنے نہیں۔ 1973ء کے آئین کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو ماضی میں ملک کے 2 وزرائے اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی لیکن دونوں مرتبہ ناکام ہوئی۔
ضیا الحق کے طویل مارشل لا کے بعد 1988ء میں جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو وزیرِاعظم منتخب ہوئیں۔ انہیں ابھی حکومت سنبھالے ایک برس بھی نہیں ہوا تھا کہ ان کے خلاف اکتوبر 1989ء میں عدم اعتماد تحریک پیش کردی گئی جو ناکام ہوئی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اس عدم اعتماد تحریک میں 12 ووٹوں سے کامیاب ہوئی تھیں۔ اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے حزبِ اختلاف کو اس وقت کی اسمبلی سے 119 ووٹ درکار تھے لیکن 107 ووٹ ملنے کی وجہ سے وہ تحریک ناکام ہوگئی۔
اس کے بعد دوسری عدم اعتماد کی تحریک جنرل پرویز مشرف کے پسندیدہ وزیرِاعظم شوکت عزیز کے خلاف آج کی اپوزیشن اے آر ڈی کے پلیٹ فارم سے 2006ء میں لائی تھی۔ اس وقت بھی قومی اسمبلی کا ایوان 342 ممبران پر ہی مشتمل تھا جس میں اپوزیشن کو وزیرِاعظم کے خلاف تحریک کامیاب بنانے کے لیے 172 ووٹوں کی اکثریت درکار تھی لیکن اپوزیشن کو 36 ووٹوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تحریک کے حق میں 136 ووٹ ڈالے گئے۔
مختلف اوقات میں لائی گئی یہ دونوں تحاریک ناکام ہونے کی صورت میں تب کے وزرائے اعظم بغیر کسی رکاوٹ اپنے اپنے عہدوں پر براجمان رہے اور معمولاتِ حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
موجودہ صورتحال
اب کی بار صورتحال کچھ مختلف اس لیے ہے کہ حزبِ اختلاف نے قومی اسمبلی کے اندر اور باہر اپنی اکثریت ظاہر کردی ہے۔ ایوان کے باہر سندھ ہاؤس میں بدھ 30 مارچ کو بلائے گئے اجلاس میں اپوزیشن نے اپنی حمایت میں 199 ممبران کو ظاہر کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی متحدہ اپوزیشن کی قیادت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ان کو 200 سے زائد اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے جبکہ اسمبلی کے فلور پر گزشتہ اجلاس میں ان کے پاس 175 ممبران موجود تھے۔
اسمبلی کے ایوان میں حزبِ اختلاف اکثریت کی بنیاد پر ایک حکومتی تحریک کو مسترد بھی کرچکی ہے۔ یہ ان کو حاصل ہونے والی اکثریت کا ایک بڑا ثبوت ہے جو اب اسمبلی ریکارڈ کا حصہ بھی بن چکا ہے۔
جمعرات 31 مارچ 2022ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس وزیرِاعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے بلایا گیا تھا لیکن بحث شروع ہونے سے قبل ڈپٹی اسپیکر نے معمول کی کارروائی شروع کی اور اس کے ساتھ حکومت نے ایک تحریک پیش کرنے کی اجازت چاہی۔
حکومت کی طرف سے یہ تحریک مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ’یہ ایوان اس بات کا متقاضی ہے کہ قومی اسمبلی کا ہال پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے اجلاس کے لیے مختص کیا جائے‘۔
ڈپٹی اسپیکر نے اس تحریک کو ایوان کے سامنے پیش کیا لیکن اپوزیشن نے اس تحریک کے خلاف وائس ووٹ کرکے اسے پہلے ہی مرحلے پر مسترد کردیا جس پر ڈپٹی اسپیکر نے اپنی رولنگ دے کر یہ اعلان کیا کہ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا یہ اجلاس اب کمیٹی روم نمبر 2 میں ہوگا۔
اسمبلی رولز میں موجود ابہام
نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے حوالے سے جب قومی اسمبلی کے ایڈیشنل سیکریٹری برائے قانون سازی مشتاق احمد سے ان کا مؤقف لیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’تحریک عدم اعتماد کے بعد نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ بلایا جائے یا اسی اجلاس میں نیا وزیرِاعظم منتخب کیا جائے، اس پر آئین اور اسمبلی قواعد و ضوابط مکمل خاموش ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اسپیکر کی صوابدید پر ہے کہ عدم اعتماد کی ممکنہ کامیابی کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرتے ہیں یا اسی اجلاس میں نئے ایجنڈا کے تحت قائدِ ایوان کو منتخب کیا جاسکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا اس بارے میں ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔
ایسی صورت میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ جس طرح درخواست کے باوجود اسپیکر نے مقررہ مدت پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں 3 دن تاخیر کی، اسپیکر کے اعلان کے باوجود مقررہ دن پر حزبِ اختلاف کو تحریک عدم اعتماد پر بحث کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور جس طرح اپوزیشن اسپیکر کو ایک فریق سمجھ کر ان پر آئین شکنی کے الزامات لگا رہی ہے تو نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تاخیری حربے استعمال کرنے کا خدشہ موجود ہے۔
ابراہیم کنبھر اسلام آباد میں مقیم ہیں اور سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این سے وابستہ ہیں۔
ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: [email protected]
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔
ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: [email protected]
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔