حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ 'منتخب' ہوگئے ہیں، اپوزیشن کا دعویٰ
پنجاب اسمبلی کی دیواروں پر کانٹے دار تار بچھا دی گئی اور مرکزی دروازے کو بند کردیا گیا ہے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے مقامی ہوٹل میں اسمبلی کا علامتی اجلاس منعقد کیا گیاجہاں مریم نواز سمیت اپوزیشن نے دعویٰ کیا کہ حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی رکن صوبائی اسمبلی شازیہ عابد نے لاہور کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ اجلاس کی صدارت کی جہاں علیم خان سمیت اپوزیشن اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ناراض اراکین نے شرکت کی، ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری بھی اجلاس میں شریک نہیں تھے.
رکن صوبائی اسمبلی شازیہ عابد نے ڈان کو بتایا کہ انہیں 3 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے 40 ویں اجلاس کے لیے پینل آف چیئرمین میں منتخب کیا گیا تھا۔
پنجاب اسمبلی کے رولز آف پروسیجر 1997 کے مطابق پینل آف چیئرمین کا رکن اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی غیرموجودگی میں سیشن کی صدارت کرسکتا ہے۔
مریم نواز نے ٹوئٹ میں کہا کہ حمزہ شہباز اپوزیشن اراکین کے 199 ووٹوں کے ساتھ پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو جاری کی جس میں حمزہ شہباز اور مریم نواز ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ(ق) کے رہنما مونس الہٰی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ‘حمزہ صاحب فلیٹیز ہوٹل کا وزیراعلیٰ بننے پر مبارک ہو’۔
خیال ہے کہ اتوار کو قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد مسترد کیے جانے کے بعد بھی اپوزیشن نے علامتی اجلاس منعقد کیا تھا، جس کی صدارت سابق اسپیکر اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی ایاز صادق نے کی تھی۔
نواز شریف نے پنجاب کا مینڈیٹ چوری کا بدلہ لےلیا، مریم نواز
اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتےہوئے مریم نواز نے کہا کہ میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اللہ نے نواز شریف اور شہباز شریف کو سرخرو کیا اور حمزہ کو پنجاب کا وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ حمزہ ایک درد دل رکھنے والا انسان ہے، نواز شریف کا ماننے والا ہے اور شہباز شریف کا بیٹا ہے، جس نے وزیراعلیٰ پنجاب بن خدمت کے ریکارڈ قائم کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے عوام کو مبارک باد دینا چاہتی ہوں کہ پنجاب کا وہ مینڈیٹ جس پر 2018 میں ووٹ چور عمران خان نے شب خون مارا اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہیں بننے دی تھی۔
مریم نواز نے کہا کہ پنجاب کے عوام کو بزدار جیسا نام کا وزیراعلیٰ ملا جس کو چلاتی فرح تھی، اس کے تانے بانے بنی گالا سے ملتے ہیں اور آنے والے دنوں میں ایسے ثبوت سامنے آئیں گے کہ لوگ حیران رہ جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کے عوام کا 2018 میں مینڈیٹ چرایا گیا اور مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے کے باوجود پنجاب کے عوام کو نمائندگی سے محروم رکھا گیا لیکن آج پنجاب کے عوام کو مبارک باد دینا چاہتی ہوں کہ آپ کے مینڈیٹ چرانے کا بدلہ نواز شریف نے لے لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں تمام جماعتوں، علیم خان گروپ، جہانگیر ترین اور اسد کھوکھر گروپ، پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگر کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں کہ پنجاب کے عوام کی جان اس غاصب حکومت سے چھڑائی ہے۔
نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ پنجاب کے عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا پڑا تو پنجاب کے عوام کو پچھلے برس رمضان میں چینی کے لیے قطاروں میں کھڑا ہونا پڑا۔
'فرح گجر کس کی فرنٹ پرسن ہے پورا پاکستان جانتا ہے'
انہوں نے کہا کہ ترقی کا ایک کام نہیں ہوا، سڑکیں بنیں تو فرح گجر کے گاؤں میں بنی اور ترقی بھی ان کے گاؤں میں ہوئی، جس کا حکومت کے اندر کوئی عہدہ نہیں اور حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے تو پنجاب میں بیٹھ کر کیسے تقریریاں اور تبادلے کرتی تھیں، ظاہر ہے کسی کی فرنٹ پرسن تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سارا پاکستان جانتا ہے کہ وہ کس کی فرنٹ پرسن تھی، کس کو ہر پوسٹنگ اور ٹرانسفر میں سے کمیشن دیتی تھی اور جب حساب کتاب کا وقت آیا تو آرام سے برقعہ پہنا کر پاکستان سے باہر بھیج دیا گیا۔
'پنجاب اسمبلی کو تالا لگادیا گیا'
انہوں نے کہا کہ آج جس طرح پنجاب اسمبلی کو تالا لگایا گیا، پنجاب اسمبلی کے اطراف خاردار تاریں بچھائی گئیں اور میڈیا کو داخلے پر پابندی عائد کی گئی اور اراکین اسمبلی کو مجبوراً اجلاس اس ہوٹل میں کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے بھی کہا تھا کہ باغ جناح یا لارنس گارڈن میں ہوجائے، اجلاس وہ ہوتا ہے جہاں پنجاب کے نمائندے ہوتے ہیں یہاں تو 200 نمائندے تھے۔
مریم نواز نے کہا کہ کون بھاگتا ہے، کون اسمبلی کو تالے لگاتا ہے، کون خاردار تاریں بچھاتا ہے اور کون میڈیا کو دور رکھتا ہے، کون اسمبلی نہیں وکٹ چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے، وہ بھاگتا ہے جس کے پاس اکثریت نہیں ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ڈکٹیرز کے دور میں دیکھا تھا کہ وہ عوامی نمائندوں کی اسمبلیوں کے اندر اپنے نمائندے بھیجتے تھے جو وہاں بیٹھ کر ایوان کی کارروائی چلایا کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے پرویز الہٰی صاحب نے اپنا دفتر اسی آمرانہ کارروائی کے لیے پیش کردیا، مجھے بہت افسوس ہوا کہ چوہدری ظہور الہٰی کی بھی خاندانی روایت تھیں تو میں پرویزالہٰی سے احترام کے ساتھ سوال کرتی ہوں کہ آپ ایک سیاسی جماعت ہیں تو آپ نے کیوں آئین شکن عمران خان کا ساتھ دیا۔
انہوں نے کہا کہ یقین نہیں آتا کہ اس طرح کا سیاسی شعور رکھنے والے خاندان کا کوئی فرد اتنی بری ہاری ہوئی بازی کھیلے گا، یہ بازی آپ ہار چکے ہیں، چاہے آپ اسمبلی کو تالا لگائیں، چاہے آپ اپنے نمائندوں کو روکیں، چاہے آپ خاردار تاریں لگائے اور میڈیا کو روکیں، چاہے آئین توڑیں، یا وکٹیں اٹھا کر بھاگ جائیں یا میدان چھوڑ کر جائیں یا غنڈہ گردی یا دہشت گردی کریں میں عمران خان اور اس کے تمام ساتھیوں کو کہنا چاہتی ہوں یہ گیم تم بری طرح ہار چکے ہو۔
'پاکستان کے پہلے سویلین ڈکٹیٹر کا اعزاز عمران خان نے حاصل کیا'
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا پہلا سویلین ڈکٹیٹر ہونے کا اعزاز آج عمران خان نے حاصل کیا ہے، یہ پہلا سویلین حکمران ہے، جس نے پاکستان کا آئین توڑا۔
مریم نواز نے کہا کہ عمران خان پاکستان کا آئین توڑنے کا داغ اپنے ماتھے پر سجا چکا ہے، اس کو اقتدار میں آنا بھی ذلت کے راستے سے نصیب ہوا اور اقتدار سے جانا اس سے بھی زیادہ ذلت سے نصیب ہوا۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کے عوام اپنے حق کے لیے کھڑے ہوں، ہم سب پاکستان کے نمائندے ہیں، آج پنجاب کے عوام کے لیے اسٹینڈ لیا ہے اور ان کا مینڈینٹ ا کے اصل نمائندے حمزہ شہباز تک پہنچایا۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے عوام اٹھو اور اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھوں لو تم یہ چاہتے ہو کہ 55 روپے کلو والی چینی 120 روپے میں ملتی رہے اور بھکاریوں کی طرح ملتی رہے اور پیٹرول کے لیے قطاروں میں لگے رہو، سحری کے وقت بھی گیس نہیں ملتی۔
'اگر دوسرے صوبوں کے مینڈیٹ چوری کی کوشش ہوئی تومریم کھڑی ہوگی'
انہوں نے کہا کہ اگر خیبرپختونخوا اسمبلی کو کوئی زک پہنچانے کی کوشش کرے گا، بلوچستان کی اسمبلی کے نمائندوں کو اگر کوئی غلط طریقے سے ہٹانے کی کوشش کرے گا، سندھ کے عوامی مینڈیٹ پر اگر کوئی کچھ کرے گا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا مینڈیٹ اگر کسی نے چوری کرنے کی کوشش کی تو مریم نواز ایسے ہی کھڑی ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اپنی نالائقی اور آئین شکنی کو کہتا ہے کہ میرے خلاف سازش ہوئی، بڑی اچھی غیرملکی سازش ہوئی، جس سے اپنے وزیراعلیٰ کو ہٹادیا، بڑی اچھی سازش تھی کہ اپنی ہی قومی اسمبلی توڑ دی۔
'اچھی بین الاقوامی سازش ہے خود اپنی اسمبلی توڑ دی'
انہوں نے کہا کہ بڑی اچھی غیرملکی سازش تھی پاکستان کے آئین کو تم توڑ دیا، خیبرپختونخوا کی حکومت کو رہنے دی، وہ بین الاقوامی سازش نے توڑنے نہیں دی۔
ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی سازش بھی حکومتیں دیکھ کر توڑتی ہے، جہاں اپنی حکومت ہوتی ہے وہ بچالی، باقی ملبہ بین الاقوامی سازش پر ڈال دیا، اپنے گورنر کو ہٹا، اپنے ڈپٹی اسپیکر کے خلاف خود عدم اعتماد کی تحریک لایا کیا یہ بھی بین الاقوامی سازش تھی۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ اگر یہ بین الاقوامی سازش تھی تو عمران خان خود اپنے ہاتھوں یہ انجام دے چکے ہیں، تو بین الاقوامی سازش کا مہرہ عمران خان ثابت ہوا، یہ سارے کام عمران خان نے خود کیے اور الزام عمران خان پر دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کے عوام سے کہنا چاہتی ہوں کہ اگر آپ ترقی چاہتے ہیں، مہنگائی سے نجات چاہتے ہیں، اپنے حقوق کی بحالی چاہتے ہیں، نئے اسکول اور صحت کی سہولیات چاہتے ہیں تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں دعا کرتی ہوں کہ آئندہ جب بھی انتخابات ہوں تو پاکستان مسلم لیگ، نوازشریف اور شہباز شریف کی حکومت آئے تاکہ ملک کی ترقی ہو۔
وفاق سے شروع ہونے والا کھلواڑ پنجاب میں پہنچا ہے، حمزہ شہباز
حمزہ شہباز نے کہا کہ آج 4 دن ہوگئے جو کھیل تماشا وفاق سے شروع ہوا، آج وہی کھلواڑ جو وفاق میں آئین اور قانون کے ساتھ ہوا اس کا تسلسل آج پنجاب میں آچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 4 دن سے پنجاب کا کوئی انتظامی سربراہ نہیں ہے، 4 سال سے کوئی والی وارث تھا ہی نہیں، کرپشن کا بازار گرم تھا، عمران خان کا وسیم اکرم دونوں ہاتھوں سے پیسے سمیٹ رہا تھا تو عمران خان کو 12 کروڑ کے اس صوبے سے کتنا انتقام لینا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کبھی اجلاس کی تاریخ دی جاتی ہے، پرویز الہٰی صاحب آتے ہیں اور جب پتہ لگتا ہے عددی اکثریت نہیں ہے تو 6 منٹ کے اندر اجلاس برخاست کردیا جاتا ہے۔
حمزہ شہباز نے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے اجلاس بلایا گیا تھا پھر رات کے دوسرے پہر میں نوٹیفکشین ہوتا ہے اجلاس ساڑھے سات بجے ہوگا لیکن اسمبلی کے دروازنے عوام کے منتخب نمائندوں کے لیے بند کردیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ پرویز الہٰی صاحب یہ آپ کے جوسیاہ کرتوت ہیں تاریخ چیخ چیخ کر اس کی گواہی دے گی کہ آپ نے پنجاب کے عوام کو اپنا قائد ایوان منتخب کرنے سے محروم رکھا۔
پرویزالہٰی کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ آپ کا بھی احتساب ہوگا اور پنجاب کی انتظامیہ پرویز الہٰی کی ذاتی ملازم نہیں ہے، ان کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ وقت بدلنا ہے، جو افسر حکومت اور عوام کے ملازم ہیں لیکن ذاتی ملازم بن کر قانون اور آئین شکنی کرے گا ہم اس کا بھی احتساب کریں گے۔
حمزہ شہباز نے کہا کہ تمام نظریں عدالت عظمیٰ پر مرکوز ہیں، میں عدالت سے درخواست کروں گا کہ یہ آئین پاکستان ٹوٹا ہے، آئین کو پامال کیا گیا ہے، آپ مہربانی فرما کر کل فیصلہ صادر فرمائیں تاکہ یہ ملک آگےچل سکے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آئین پر لگنے والے زخم کا مداوا نہ کیا گیا تو خدانخواستہ یہ ملک کسی حادثے سے دوچار ہوجائے گا اور ہم اپنی آنے والی نسلوں کو انصاف نہیں دے سکیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ عدالت عظمیٰ اس آئین شکنی کا نوٹس لے گی تاکہ جمہوریت کی گاڑی چلتی رہے گی ورنہ دنیا ہمارا مذاق اڑائے گی اور یہ ملک بنانا ریاست بن جائے گا۔
حمزہ شہباز نے پرویز الہٰی آئین کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے، یہ کھلواڑ آپ کو بہت مہنگا پڑنے والا ہے، ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور آپ کو عوام کے کٹہرے میں آکر اس ظلم کا حساب دینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جن نے آئین کا مذاق اڑایا اب ان کا مذاق بننے والا ہے، ہم متحدہ اپوزیش پوری طرح یکسو ہیں اور ہم اس کا محاسبہ کریں گے۔
اس سے قبل مریم نواز نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا تھا کہ 'پنجاب اسمبلی کا ابھی ہونے والا اجلاس علامتی نہیں بلکہ آئینی اور قانونی اجلاس ہے، مسلم لیگ (ن) اپنی اکثریت ثابت کرنے جا رہی ہے'۔
اجلاس کہیں بھی ہوسکتا ہے، ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی
پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کا اجلاس کہیں بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانونی ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ وزیراعلیٰ کا انتخاب آج ہی فوری طور پر کیا جائے۔
دوست محمد مزاری نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے اپسیکر چوہدری پرویز الہٰی اور اس کا عملہ گھبرایا ہوا ہے کہ ان کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے اختیارات کا استعمال آئین کے مطابق کیا ہے اور اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ وزیراعلیٰ کے بغیر چل رہا ہے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطابندیال کو آگاہ کیا گیا تھا کہ اسمبلی کا عملہ ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے طلب کیا گیا اجلاس منعقد نہیں ہونے دے رہا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر نظام تعاون نہیں کر رہا ہے تو پھر آئینی عہدیدار اپنا حق استعمال کرسکتےہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘ڈپٹی اسپیکر چاہیں تو اسمبلی کا اجلاس باغ جناح میں طلب کرسکتا ہے’۔
تاہم پنجاب اسمبلی کے ترجمان کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر آئینی طور پر کسی بھی اجلاس کی صدارت کے مجاز نہیں، اگر وہ ایسا کریں گے تو آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔
پنجاب اسمبلی کے ترجمان نے بیان میں کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد آ جائے تو وہ کسی اجلاس کی صدارت نہیں کر سکتے۔
پنجاب اسمبلی خاردار تاروں سے سیل
دوسری جانب پنجاب اسمبلی کو خار دار تاروں سے سیل کردیا گیا ہے اور عمات کے باہر پولیس کی بھاری نفری کو لاٹھیوں اور شیلڈز کے ساتھ تعینات کردیا گیا ہے، واٹر کینن اور ریسکیو 1122 کی گاڑیاں بھی اسمبلی کی عمارت کے باہر کھڑی ہیں۔
مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع
صوبائی اسمبلی سیل کرنے کے اقدامات ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے آج ساڑھے 7 بجے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اجلاس بلانے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے پیش نظر کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب اسمبلی ترجمان اور پاکستان مسلم لیگ (ق) نے اسمبلی اجلاس کی تردید کردی تھی۔
عوامی ایوان کے اطراف خار دار تار بچھائی گئی ہے، بلاول بھٹو
پنجاب اسمبلی سیل کرنے پر پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ‘قبضہ کرنے میں 30 سیکنڈ لگ سکتے ہیں تو اس کو غیر مؤثر کرنے کے لیے بھی 30 سیکنڈز لگنے چاہیئں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘انصاف میں تاخیر انصاف کی فراہمی سے انکار ہے’۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ‘گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ہونے والی آئین کی منسوخی کے بعد آج پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کو اسمبلی سے باہر روک دیا گیا ہے جب وزیراعلیٰ کے لیے ووٹنگ کا دن ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘عوامی ایوان کے اطراف خار دار تار بچھائی گئی ہے’۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ وہ حمزہ شہباز کی حمایت کرنے کے لیے 7 بجے پنجاب اسمبلی پہنچیں گی، جو وزیراعلیٰ کے امیدوار ہیں۔
انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘حمزہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے، جنہیں واضح اکثریت حاصل ہے، میں 7 بجے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں جاؤں گی، ان شااللہ’۔
اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) نے ڈپٹی اسپیکر کےخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی تھی.
ڈپٹی اسپیکر کو نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے اجلاس سے روکنے کے لیے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی نے ان کے اختیارات بھی واپس لے لیا تھا.
اسپیکر کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ‘پچھلے حکم کو روکنے اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر کے رول 15 کو 235 کے ساتھ ملا کر، میں پرویز الہیٰ، اسپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب کی حیثیت سے ڈپٹی اسپیکر کو رول 25 کے تحت حاصل اختیارات واپس لیتا ہوں، جس کا نفاذ فوری ہوگا’۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اسپیکر پرویز الہٰی کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی ہے.
خیال رہے کہ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے وزیر اعلیٰ کا انتخاب عمل میں لائے بغیر اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل تک مؤخر کردیا تھا.
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ کا انتخاب: پنجاب اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل تک مؤخر
ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری کی جانب سے جاری احکامات میں کہا گیا تھا کہ ‘صوبائی اسمبلی پنجاب کے رولز اینڈ پروسیجر 1997 کے رول 25 بی کے تحت حکم دیا جاتا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے 40 ویں سیشن کا اگلا اجلاس 6 اپریل 2022 کے بجائے ہفتہ 16 اپریل 2022 کو اسمبلی چیمبرز میں ہوگا’۔
اس سے قبل 3 اپریل کو بھی ہنگامی آرائی کے بعد اجلاس وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کے بغیر ملتوی کردیا گیا تھا۔
ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری کے زیر صدارت تاخیر سے شروع ہونے والے اجلاس میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزادر، وزیر اعلیٰ کے امیدواروں چوہدری پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز سمیت ارکان نے شرکت کی تھی۔
پنجاب اسمبلی کے اجلاس کا ون پوائنٹ ایجنڈا وزیراعلیٰ کا انتخاب تھا تاہم گھنٹی بجنے کے بعد اجلاس شروع ہونے پر ایوان میں ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی اور اسپیکر کی جانب سے ہنگامہ آرائی پر اجلاس 6 اپریل تک ملتوی کردیا گیا تھا۔
اس سے ایک روز قبل بھی وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے منعقد ہونے والا پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ آرائی کے سبب ملتوی کردیا گیا تھا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کا چناؤ
گزشتہ ماہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے تحریک عدم اعتماد پر مستعفی ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی کے لیے نئے سربراہ انتخاب کی ضرورت ہے، پی ٹی آئی کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے امیدوار کے طور پر مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ پی ایم ایل این نے حمزہ شہباز کو نامزد کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ، مسلم لیگ (ن) کے 3 اراکین کی رکنیت معطل
حمزہ شہباز کو پی ٹی آئی کے منحرف اراکین، جہانگیر ترین اور علیم خان گروپس کی حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کی دوڑ میں ان کے آگے بڑھنے کی توقع ہے۔
وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے امیدوار کو 371 ایوان میں موجود اراکین میں سے 186 اراکین کے ووٹ درکار ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 183، مسلم لیگ (ق) کے 10، مسلم لیگ (ن) کے 165، پیپلز پارٹی کے 7 اراکین موجود ہیں، جبکہ صوبائی اسمبلی میں5 آزاد اراکین ہیں اور ایک تعلق راہِ حق پارٹی سے ہے۔
وزیر اعلیٰ کی نشست پر ہار یا جیت کا فیصلہ جہانگیر ترین کی حمایت پر منحصر ہے، جن کے کہنا ہے کہ ان کے پاس کم ازا کم 16 اراکین صوبائی کے اسمبلی کے ووٹ ہیں۔