• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے ایران کا امریکا سے پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ

شائع April 10, 2022
تہران اور واشنگٹن کی جانب سے دیگر مسائل پر ضروری سیاسی فیصلے لینے سے متعلق ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بعد مذاکرات تعطل کا شکار ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
تہران اور واشنگٹن کی جانب سے دیگر مسائل پر ضروری سیاسی فیصلے لینے سے متعلق ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بعد مذاکرات تعطل کا شکار ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کو ایران پر پابندیاں ہٹاتے ہوئے تہران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری معاہدے کی طرف بڑھنے کے لیے نیک نیتی کا اظہار کرنا چاہیے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ایران اور امریکا 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے گزشتہ سال سے ویانا میں بالواسطہ گفتگو میں مصروف ہیں۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں مذکورہ جوہری معاہدے سے دستبردار ہوگئے تھے جس کے بعد ایران نے جوہری پروگرام کی خلاف ورزی شروع کردی تھی۔

تہران اور واشنگٹن کی جانب سے دیگر مسائل پر ضروری سیاسی فیصلے لینے سے متعلق ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بعد مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔

مزید پڑھیں: ایران کا جوہری معاہدے سے مکمل دستبرداری کا اعلان

ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ’اگر جو بائیڈن پابندیاں ختم کرتے ہوئے جوہری معاہدے میں واپس آنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہیں ایران کے وسائل اور لوگوں پر پابندیاں عائد کرنے کے بجائے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے اپنی نیک نیتی کا اظہار کرنا چاہیے‘۔

امیر عبداللہیان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے متعدد مواقع پر امریکیوں کو کہا کہ انہیں کسی بھی معاہدے کی ترجیح کے لیے ایک یا دو عملی نقاط لانے چاہئیں، جن میں ایک مثال غیر ملکی بینک میں موجود ایران کے اثاثے بحال کرنے کی ہے‘۔

قبل ازیں رواں برس 4 مارچ کو ویانا مذاکرات میں موجود برطانوی ایلچی کا کہنا تھا کہ 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ایران اور امریکا کے مذاکرات معاہدے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

اس دوران ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا تھا کہ جوہری معاہدے تک پہنچنے میں مغرب کی جلد بازی، اقتصادی ضمانتوں سمیت ایران کی سرخ لکیروں کی پابندی نہیں روک سکتی، سرخ لکیروں کی مکمل تعمیل ضروری ہے۔

واضح رہے کہ 8 مئی 2018 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے چین، روس، برطانیہ، جرمنی سمیت عالمی طاقتوں کے ہمراہ سابق صدر باراک اوباما کی جانب سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کے جوہری معاہدے کا مسودہ سامنے آگیا

5 مارچ 2019 کو اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ادارے نے کہا تھا کہ ایران 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے کی تعمیل کر رہا ہے اور مزید ہتھیاروں کی تیاری سے گریز کرنے پر کاربند ہے۔

2015 میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے دیگر عالمی طاقتوں بشمول برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا کے مابین ویانا میں ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق طے پانے والے ایک معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔

ایران نے بھی اس معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ ایران بلیسٹک میزائل بنانے کے تمام پروگرام بند کردے گا اور اس معاہدے کے متبادل کے طور پر ایران پر لگائی گئی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی اور اسے امداد کے لیے اربوں روپے حاصل ہوسکیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024