عمران خان نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے کی تحقیقات کیلئے صدر، چیف جسٹس کو خط لکھ دیا
سابق وزیراعظم عمران خان نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال کو خطوط لکھے ہیں جس میں ان سے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے کی تحقیقات کے لیے پبلک انکوائری اور جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے برطرف کیے جانے سے قبل عمران خان نے بارہا دعویٰ کیا تھا کہ امریکا میں سابق پاکستانی سفیر کو جوبائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا تھا کہ اگر عدم اعتماد کی قرارداد کامیاب ہو جاتی ہے تو پاکستان معاف کردیا جائے گا ورنہ ملک کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
وہ ان دعووں کو آج تک قائم ہیں اور برطرف کیے جانے کے بعد اپنے حامیوں سے تقریروں میں امریکی حمایت یافتہ سازش پر زور دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کے خلاف 'غیر ملکی سازش کے ثبوت' پر مبنی خط پر صحافیوں کو بریفنگ
تقریباً ایک جیسے خطوط میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ چیف جسٹس اور صدر کے پاس اس مراسلے کی کاپیاں ہیں جو اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید خان کو امریکی معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو نے دی تھیں۔
خطوط میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کا خیال تھا کہ مراسلے کے مندرجات 'وزیراعظم عمران خان' کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے کے لیے حکومت کی تبدیلی کی سازش کو واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں۔
خطوط میں اس وقت کی حکومت کی اتحادی جماعتوں کی وفاداری بدلنے اور پی ٹی آئی کے کچھ اراکین کی وفاداری کی خریدے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ 'انجینئرڈ' تھا۔
مزید پڑھیں: دھمکی آمیز خط: فواد چوہدری کی وزارت قانون کا اضافی چارج سنبھالتے ہی کمیشن بنانے کی ہدایت
عمران خان نے یہ بھی واضح کیا کہ مراسلے کی وجہ سے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے اس کی تحقیقات ہونے تک عدم اعتماد پر ووٹنگ کو مسترد کر دیا تھا۔
اس کے بعد انہوں نے چیف جسٹس اور صدر سے درخواست کی کہ کم از کم اس مراسلے کا جائزہ لیں جس میں واضح طور پر غیر ملکی حکومت کی تبدیلی کی سازش کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس کی تحقیقات کا حکم دیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ کھلی سماعتوں کے لیے ایک کمیشن تشکیل دے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کی اس سازش میں کون ملوث ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سڑکوں پر نکل کر سازش کے خلاف احتجاج کریں، وزیراعظم کی نوجوانوں سے اپیل
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان اور ایوان صدر کی خاموشی پاکستانی عوام میں بے وفائی اور بے بسی کا احساس پیدا کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین نے کہا یہ امر انہیں اس کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے باہر نکلنے پر مجبور کررہا ہے جو اسے ان کے ووٹ کے جمہوری حق کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
کیبل گیٹ
قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے برطرف کیے جانے کے بعد سے عمران خان نے شہباز شریف حکومت کو 'امپورٹڈ' قرار دیتے ہوئے نامنظور کیا ہے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد غیر ملکی سازش کا حصہ ہے، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے ان کے خلاف باضابطہ طور پر تحریک عدم اعتماد دائر کرنے سے ایک دن قبل 7 مارچ کو سفیر سے موصول ہونے والی کیبل اس سازش کا ثبوت ہے۔
مراسلے کا معاملہ پہلی بار عمران خان نے 27 مارچ کو ایک عوامی ریلی میں عوامی سطح پر اٹھایا تھا۔
یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا ’دھمکی آمیز خط‘ سینیئر صحافیوں، اتحادیوں کو دکھانے کا اعلان
انہوں نے کہا تھا کہ میں آج قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، میں الزامات نہیں لگا رہا، میرے پاس جو خط ہے، یہ ثبوت ہے اور میں آج یہ سب کے سامنے کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی شک کر رہا ہے، میں ان کو دعوت دوں گا کہ آف دا ریکارڈ بات کریں گے اور آپ خود دیکھ سکیں گے کہ میں کس قسم کی بات کر رہا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب کے سامنے دل کھول کر کہہ رہا ہوں، بیرونی سازش پر ایسی کئی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لائی جائیں گی، قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ لندن میں بیٹھا ہوا کس کس سے ملتا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے کے اوپر چل رہے ہیں۔
تاہم وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر اپنی جیب سے خط نکالا، عوام کے سامنے لہرایا اور پڑھے بغیر واپس رکھ لیا تھا۔
حیرت انگیز طور پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کسی بھی خط کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی حکومت کو ہٹانے میں کوئی غیر ملکی سازش ثابت نہیں ہوئی، قومی سلامتی کمیٹی
31 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس (جس کی صدارت خود عمران نے کی تھی) کے بعد ایک بیان میں لفظ 'سازش' کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن 'واضح مداخلت' کا اعتراف کیا گیا، جس کے بعد ملک میں ایک مضبوط ڈیمارچ بھیجا جائے گا جس کا نام نہیں لیا گیا تھا۔
اس کے بعد سے عمران خان نے کئی عوامی خطابات میں انہیں اقتدار سے ہٹانے کی مبینہ سازش کا ذکلر کرتے ہوئے اس مراسلے کا حوالہ دیا۔
اپنے ایک خطاب میں عمران خان نے کہا کہ مراسلے میں پاکستانی سفیر اور امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا امور ڈونلڈ لو کے ساتھ ملاقات کی تفصیلات موجود ہیں جس میں مؤخر الذکر نے مبینہ طور پر پاکستان کو دھمکی دی تھی۔
14 اپریل کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ شامل نہیں ہے۔
بعدازاں 22 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا 38واں اجلاس ہوا، اجلاس میں امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر اسد مجید نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر بریفنگ دی جس کے دوران بتایا گیا عمران خان کی حکومت کو ہٹانے میں کوئی غیر ملکی سازش ثابت نہیں ہوئی۔