• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

’احتجاج کی اجازت دی جائے‘، پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی

شائع June 1, 2022
درخواست میں استدعا کی گئی کہ احتجاج کے راستے میں رکاوٹیں حائل نہ کی جائیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
درخواست میں استدعا کی گئی کہ احتجاج کے راستے میں رکاوٹیں حائل نہ کی جائیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اسلام آباد میں لانگ مارچ کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

درخواست پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کی جانب سے علی ظفر ایڈووکیٹ نے جمع کرائی جس میں وزارت داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور ہوم سیکرٹریز کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت کو حکم دے کہ وہ تحریک انصاف کو احتجاج کی اجازت دیں۔

درخواست میں مزید استدعا کی گئی ہے کہ احتجاج کے دوران کسی کارکن کو گرفتار نہ کیا جائے، احتجاج کے راستے میں رکاوٹیں حائل نہ کی جائیں، وفاقی اور پنجاب حکومت کو تشدد اور طاقت کے استعمال سے روکا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: آزادی مارچ کے شرکا پر پولیس تشدد قابل مذمت، ناقابل برداشت ہے، عمران خان

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ احتجاج ہر شہری کا بنیادی حق ہے، آئین پاکستان بھی پرامن احتجاج کی اجازت دیتا ہے، آرٹیکل 4 کے مطابق تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔

پی ٹی آئی نے درخواست میں استدلال کیا کہ آئین کا آرٹیکل 15، 16، 17 اور 19 پرامن طریقے سے نقل و حرکت، جمع ہونے، بولنے اور اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران بڑے پیمانے پر گرفتاریاں احتجاج روکنے کے لیے تھیں۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف مقدمات آزادی اظہار رائے پر قدغن کے مترادف ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی کے آزادی مارچ کا کنٹینرز کے ذریعے راستہ روکا گیا، پارٹی کارکنان کو آنسو گیس اور پولیس کے لاٹھی چارج کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھیں: حکومت کا پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو روکنے کا اعلان

مظاہرین کے ریڈ زون میں داخل ہونے کے بعد فوج کو طلب کرلیا گیا تھا، پی ٹی آئی کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے کریک ڈاؤن کیا گیا جس میں پی ٹی آئی کے ہزار سے زائد رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔

لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور کراچی سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی جب کہ پنجاب حکومت نے امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے رینجرز کی طلب کرلی تھی۔

اس کے بعد 26 مئی کو سابق وزیراعظم عمران خان نے آزادی مارچ ختم کرتے ہوئے حکومت کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے لیے 6 روز کی مہلت دی تھی جو گزشتہ روز اختتام پزیر ہوچکی ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے 6 روز میں حکومت کی جانب سے الیکشن کا اعلان نہ کرنے کی صورت میں دوبارہ اسلام آباد آنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے احتجاج کے حوالے سے تحفظ نہ دیا تو دوسری حکمت عملی بنائیں گے، عمران خان

بعد ازاں مذکورہ تنبیہ کے پیشِ نظر پولیس نے ڈی چوک اور سری نگر ہائی وے پر کنٹینر لگا دیے تھے۔

پیر کے روز نجی ٹی وی 92 نیوز کے میزبان معید پیرزادہ کو انٹرویو میں پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا تھا کہ ان کی پارٹی سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی اور پوچھے گی کہ ملک میں پرامن احتجاج کرنا جائز ہے یا نہیں۔

سابق وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اگر اس بار سپریم کورٹ نے ہمارے بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کیا تو یہ جمہوریت نہیں ہے، اب یہ سپریم کورٹ میں ٹرائل ہو گا۔

اس سے قبل پشاور میں وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ ہم سپریم کورٹ سے رولنگ لے رہے ہیں کہ پُرامن احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے یا نہیں، یہ پختونخوا اور گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کو کیسے روک سکتے ہیں اور انہوں نے ہمیں کس قانون کی بنیاد پر روکا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: ’لانگ مارچ‘ کے شرکا کو ہراساں کرنے کےخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر

ان کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ ہمیں تحفظ دیتا ہے تو وہ ہماری ایک حکمت عملی ہو گی لیکن اگر وہ ہمیں تحفظ نہیں دیتا تو پھر میری دوسری حکمت عملی ہو گی اور وہ حکمت عملی یہ ہو گی کہ یہ جو بھی رکاوٹیں کھڑی کریں گے ہم منصوبہ بندی کر کے جائیں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ عمران خان کا لانگ مارچ اگر ریاست مخالف ہوا تو سختی سے نمٹا جائے گا اور مقدمہ درج کیا جائے گا۔

دریں اثنا لاہور پولیس نے عمران خان کی جانب سے اسلام آباد پر ایک اور لانگ مارچ کی کال کے پیش نظر پی ٹی آئی کے ایک ہزار سے زائد رہنماؤں، کارکنوں اور فنانسرز کو ان کی احتیاطی گرفتاری (جرم سرزد ہونے سے قبل کی جانے والی گرفتاری) کی فہرستیں تیار کرلی ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024