• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

فیک نیوز: پاک بھارت تعلقات میں حائل ایک بڑی رکاوٹ

شائع June 2, 2022

تاریخ میں ایسا کم ہی ہوا ہے کہ جنوبی ایشیا کی ایٹمی طاقتیں پُراعتماد فضا میں باہمی امور پر بات کریں۔ دونوں طرف خطے کی سیاست کو ایک خاص عینک سے دیکھا جاتا ہے۔ اکثر انڈو پاک پلیٹ فارمز پر 'سوشل میڈیا وار' چلتی رہتی ہے جہاں الفاظ کا غیر سنجیدہ استعمال بعض اوقات گولیوں اور تلوارں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ 'پرو انڈیا' اور 'پرو پاکستان' جنوبی ایشیا کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کےعام ٹرینڈز ہیں۔ دونوں طرف ہی غداری کے لیے بھارت یا پاکستان کا نام جوڑ دینا کافی سمجھا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا نے جہاں عام آدمی کو اپنے ہر مسئلے پر آواز اٹھانا سکھا دی ہے وہیں قاری ہر موضوع اور ہر خبر پر نظر رکھنا بھی سیکھ گیا ہے۔ اسی لیے آج سب جانتے ہیں کہ الزامات، جعلی اور جھوٹ پر مبنی خبریں میڈیا کا حصہ بنتی ہیں اور آگے بھی بنتی رہیں گی لیکن اس سیلاب کو روکیں کیسے اور حقیقت واضح کیسے ہو؟ کیونکہ سچ جاننا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔

جہاں ایک طرف بھارت اور پاکستان میں سوشل میڈیا پر لفظی جنگ چلتی رہتی ہے وہیں اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ دونوں طرف کے لوگ کھلے ذہنوں کے ساتھ حقیقت جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس 'ففتھ جنریشن وار' کے تحت چلنے والی رپورٹس ہوں، ٹرینڈز ہوں یا ویڈیوز، ان سے بچنا اسی وقت ممکن ہے جب قاری خبر کی جانچ کرے۔ تاہم دیکھا گیا ہے کہ عام آدمی تو کجا اکثر صحافی بھی ان پرو پیگنڈا خبروں کو آگے پھیلا رہے ہوتے ہیں۔

یہاں کچھ بنیادی سوال اٹھتے ہیں کہ کیا پاک بھارت تعلقات میں سوشل میڈیا پر چلنے والی غلط اور جھوٹی خبروں کو روکا جاسکتا ہے؟ آیا یہ ممکن بھی ہے یا نہیں؟ اور اس صورتحال میں عوامی رابطے اپنا کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟

لیکن پہلے جان لیں کہ غلط معلومات اور خبریں ہیں کیا؟

جعلی یا فیک نیوز کیا ہوتی ہیں؟

جعلی خبر یا فیک نیوز کی سادہ تعریف جھوٹی معلومات کو پھیلانا ہے جسے عرف عام میں سنی سنائی بات کرو آگے بڑھانا کہتے ہیں۔ وہ سب باتیں جو حقیقت پر مبنی نہ ہوں فیک نیوز کے زمرے میں آئیں گی۔ اگر ہم مس انفارمیشن (misinformation) کی بات کریں تو یہ وہ غلط معلومات ہوتی ہے جس کو پھیلانے میں کسی کی نیت کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ جبکہ ڈس انفارمیشن (disinformtation) سے مراد ایسی گمراہ کن معلومات یا پروپیگنڈا ہوتا ہے جسے شعوری طور پر پھیلایا جائے۔ جبکہ فیک نیوز کی بنیادی تعریف یہی کہ غلط ،نامکمل یا جھوٹی معلومات اور بیانیے کو خبر کی صورت میں پیش کرنا۔ اس کی سامنے کی مثال انڈین کرونیکل اور ای یو ڈس انفو لیب رپورٹ ہے۔

حالیہ دنوں میں جعلی خبروں کو 'ڈیپ فیک' کی صورت میں بھی پھیلایا جارہا ہے۔ اس میں آڈیو، ویڈیو اور تصاویر کی مدد سے غلط اور جھوٹی خبر کو بین الاقوامی سطح پر آگے بڑھایا جاتا ہے۔

جعلی خبروں کی ایک مثال 2019ء کے بھارتی الیکشن کے دوران بھی سامنے آئی جب بھارتی میڈیا نے ایک خبر جاری کی کہ برٹش ہیرالڈ کے پول کے مطابق بھارتی وزیر اعظم دنیا کے طاقتور رہنما ہیں۔ اسے یوپی کے وزیر اعلٰی یوگی ادتیہ ناتھ نے انتخابی مہم کا حصہ بناتے ہوئے اخبار میں اشتہار دیے۔ ساتھ ہی ایک اور خبر سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ نیویارک ٹائم کے ایڈیٹر نے نریندر مودی کی تعریف کی ہے۔

ہم خود بھی دیکھیں تو اکثر ہمارے یہاں عام لوگ بہت سی جعلی، غلط اور جھوٹی خبروں کو آگے بڑھادیا دیتے ہیں کیونکہ انہیں اس خبر میں کوئی غلط بات نظر نہیں آتی یا وہ اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس میں واٹس ایپ کے فارورڈ میسیجز بھی شامل ہیں جو مس انفارمیشن (misinformation) اور نامکمل معلومات کی واضح مثال ہیں۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی بہت سی پوسٹ بھی غلط باتوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ مارچ کے مہینے میں چھپنے والی ایشین پریس کی پوسٹ جس میں سے کہا گیا کہ سی آئی اے، موساد اور را نے عمران خان کی حکومت گرائی۔ جبکہ ذرا سی تحقیق سے ہی معلوم ہو رہا تھا کہ یہ خبر درست نہیں کیونکہ ایشین پریس کے نام کا کوئی اخبار وجود نہیں رکھتا، پھر خبر میں رپورٹر کا نام بھی نہیں دیا گیا تھا۔ اس خبر کو پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں کے ناموں سے آگے بڑھایا گیا۔

دوسری جانب ڈس انفارمیشن (disinformation) کا بنیادی کام جھوٹ پر مبنی خبر کو آگے بڑھاکر کسی کی کردار کشی کرنا اور ذاتی زندگی کو متاثر ہوتا ہے۔ اس قسم کی خبریں صرف سوشل میڈیا کا حصہ نہیں بنتیں بلکہ پرنٹ اور ٹی وی چینل بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ دایاں ادا نہیں کرتے جس سے جعلی خبریں مستند پلیٹ فارم کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں۔ ہمارے یہاں قندیل بلوچ سے متعلق خبریں غیر ذمہ دارآنہ انداز میں آگے بڑھائی گئیں اور ساتھ ہی یہاں غریدہ فاروقی کے حوالےسے کردار کشی کے ٹرینڈ چلائے گئے۔ یہ سب بھی ڈس انفارمیشن کے زمرے میں آئیں گے۔

ایک رپورٹ کے مطابق غلط یا جھوٹ پر مبنی خبروں کو زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا جاتا ہے کیونکہ یہاں ہر کوئی تجزیہ کار ہے چاہے وہ صحافی ہو یا غیر صحافی۔ یہ ساری چیزیں ہمیں پاک بھارت سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بھی نظر آتی ہیں جس سے دونوں اقوام کے سفارتی تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ جیسے امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کا شور تھا بالکل اسی طرح حالیہ دنوں میں پاک فوج مخالف ٹرینڈز کے بارے میں فواد چوہدری کہتے پائے گئے ہیں کہ یہ ٹرینڈ انڈیا سے بن رہے ہیں۔ اب اس میں کتنی سچائی ہے یہ وہ خود جانتے ہیں یا ٹوئٹر اور گوگل اینالیٹکس۔

پاک بھارت سیاست، جعلی خبریں اور سوشل میڈیا اداروں کی ذمہ داریاں

فیک نیوز کے حوالے سے سوشل میڈیا اداروں کی ذمہ داریاں سب سے زیادہ کورونا کے دوران محسوس کی گئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کورونا کے حوالے سے پھیلائی گئی غلط خبروں سے انسانی جانوں کو خطرہ لاحق تھا۔ ویکسینیشن کے حوالے سے ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں اینٹی ویکسینیشن معلومات اور خبروں کی بھرمار تھی۔ اس وجہ سے ان اداروں پر زور دیا گیا کہ وہ غلط اور جھوٹ پر مبنی خبر کو پھیلنے سے روکیں۔ جس کے نتیجے میں پچھلے سال فیس بُک اور یوٹیوب پر سے بہت بڑے پیمانے پر ان خبروں کو ہٹایا گیا۔ اس حوالے سے درست معلومات تک رسائی کے لیے لوگوں کو مدد بھی فراہم کی گئی۔

پاک بھارت سیاست میں یہ پہلو مزید سنگین صورت اختیار کرلیتا ہے اور یہاں ہمیں سوشل میڈیا اداروں کی جانبداری بھی نظر آتی ہے۔ کیونکہ بہت سی خبریں جو حقیقت اور سچ پر مبنی ہوتی ہیں وہ بھی روک دی جاتی ہیں۔ مثلاً کشمیر میں ہونے والی بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں ہوں یا برہان مظفر وانی کی تصاویر کا معاملہ ہو، ہم نے دیکھا کہ بہت سے سوشل میڈیا اکاؤنٹ صرف تصاویر شیئر کرنے پر ہی ہٹادیے گئے۔ اسی طرح بھارت میں مسلم مخالف مہم کو بھی سوشل میڈیا پر چلنے دیا جاتا ہےجس سے بھارت کی مسلمان اقلیت خوف کا شکار ہے۔

اگر غور کیا جائے تو گوگل کے سندر پیچائی ہوں یا ٹوئٹر کے پریش اگروال، سوشل میڈیا کی دنیا میں بھارتی نژاد افراد اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں۔ یوں کہیں نہ کہیں پاکستان اور بھارت کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسے ٹوئٹر اور فیس بک کی 'پالیسی' میں ان کے اثرات نظر آتے ہیں۔

میں خود سوشل میڈیا بہت احتیاط کے ساتھ استعمال کرتی ہوں۔ بہت دیکھ بھال کر خبریں، معلومات اور رائے دیتی ہوں کیونکہ یہ میری ذمہ داری ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے نام کے ساتھ کوئی ایسی خبر نہ جائے جو غلط ہو یا جھوٹ پر مبنی ہو۔ جہاں مجھے لگے کہ بات درست نہیں ہے تو اس کی تصدیق کرتی ہوں اور وہ بات غلط ہو تو اسے آگے نہیں بڑھاتی۔ لیکن مجھے حیرت ہوئی کے گزشتہ کچھ سالوں میں میری جانب سے شیئر کی گئی کئی خبروں کے لنک ہٹادیے گئے ہیں جبکہ وہ خود بھارتی میڈیا کی خبریں تھیں جن کی سچائی پر مجھے ایک فیصد بھی شک نہیں تھا۔ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کے حوالے سے کی جانے والی خبریں ہوں یا کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کی حقیقت آگاہ کرتی خبر ہو ان میں سے اکثر ہٹا دی گئی ہیں۔ اس ہی طرح ہمیں اسرائیل اور دیگر بڑی طاقتوں کا اثر و رسوخ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔


حکومت پاکستان کے جعلی اور غلط خبروں کی روک تھام کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات

ترجمان دفتر خارجہ محسن افتخار کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جعلی اور جھوٹ پر مبنی خبروں کو بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے کیونکہ یہ ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے۔ دنیا بھر میں بھارت کو جعلی خبروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ریاستی آلہ کار سمجھے جانے وال بھارتی میڈیا کئی دہائیوں سے پاکستان کے خلاف گمراہ کن معلومات کو پھیلا رہا ہے۔ جس کی واضح مثال ای یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ ہے۔ اس میں بتایا گیا کہ ہندوستانی نیٹ ورک کس طرح اقوام متحدہ سے منظور شدہ این جی اوز کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا تھا۔ اس حوالے سے ہم نے اس نیٹ ورک کی شناخت کی اور پھر اس پر کام کرتے ہوئے غیر ملکی اداروں سے بات کی اور زور دیا کہ ڈس انفارمیشن پر مبنی خبروں کو ہٹایا جائے اور اس میں شامل تمام افراد کو جوابدہ بنایا جائے۔ یہی نہیں بلکہ ہم اپنے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر کے صحافیوں کو بریفنگ دیتے رہتے ہیں کیونکہ بھارتی پروپیگنڈا کو روکنا ضروری ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلی بار 'انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کے تحفظ' کے لیے ڈس انفارمیشن کی روک تھام کے حق میں قرارداد پیش کی جسے دسمبر 2021ء میں اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے جعلی اور غلط خبروں کی روک تھام کے لیے چند اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ جیسے کہ ہم مقامی سطح بھی پر اور بیرون ملک بھی میڈیا بریفنگ کرتے ہیں تاکہ غلط اطلاعات اور پروپیگنڈا کو روکا جاسکے۔ انہوں نے زور دیا کہ آج کا پاکستانی پہلے کے مقابلے میں زیادہ تعلیم یافتہ اور باخبر ہے جسے گمراہ نہیں کیا جاسکتا ساتھ ہی پاکستانی سفارت خانے بھی اس حوالے سے اپنا فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر پاکستانی سفارت خانے مقامی سطح پر کوئی منفی، جعلی اور غلط خبر دیکھتے ہیں تو وہاں کے اداروں اور افراد سے رابطہ کرکے اس پر بات کرتے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ سفارت کاری میں رابطہ کاری سب سے زیادہ اہم ہے جس سے ایسی تمام خبروں کو روکا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بین الصوبائی وزارتیں بھی فیک نیوز پر نظر رکھتی ہیں اور آپس میں معلومات اور یادداشتوں کا تبادلہ کرتی ہیں۔ پبلک ڈپلومیسی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور حکومت پاکستان اس پر بہت زور دیتی ہے کیونکہ اس ہی کی بدولت پاکستان کے خلاف کی جانے باتیں روکی جا سکتی ہیں۔ حکومت سوشل میڈیا کمپنیوں سے بھی مدد حاصل کر رہی ہے۔ محسن افتخار صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں غلط اور جعلی خبروں کو روکنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی ضروری ہے جو میڈیا اور سول سوسائٹی کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔

بھارتی میڈیا کی ڈس انفارمیشن اور جعلی خبروں کی بھرمار

انڈین میڈیا میں جعلی خبروں کی بات ہو یا ڈس انفارمیشن کی اب ساری دنیا جانتی ہے کہ اس نے بین الaقوامی سطح پر غلط خبروں کو پھیلایا۔ کیونکہ اب 'انڈین کرونیکل' سے متعلق ای یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ سب کے سامنے ہے۔

پچھلے چند ہفتوں میں پاکستان کی سیاسی تاریخ نے کئی صفحات ایک ساتھ پلٹے۔ حکومت وقت اور متحدہ اپوزیشن نے کئی قلابازیاں کھائیں۔ اس دوران ہم نے دیکھا کہ انڈین میڈیا نے پاکستان کی اندونی سیاسی کشمکش میں خوب دلچسپی لی، یہاں تک کہ لائیو ٹیلی کاسٹ سے لے کر نیوز ویب سائٹ نے لائیو اپ ڈیٹ جاری رکھیں اور پورے پورے دن کی خبریں نشر کی گئیں۔ کئی بھارتی خواتین و حضرات نے ہمیں بتایا کہ کہ ہمیں اس وقت لگ رہا تھا کہ ہم پاکستان میں ہیں۔

انٹر نیشل سنیٹر فارجرنلسٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے اپنے بیانے کو پھیلانے کے لیے کئی جعلی عالمی نیوز آوٹ لیٹ جیسے بوسٹن اسٹار، ہانگ کانگ ہیرالڈ، ٹورانٹو ٹیلی گراف وغیرہ تشکیل دیے۔ یہی نہیں بلکہ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ ان جعلی نیوز سائٹ کی تعداد تقریباً 750 ہے۔ جعلی خبروں کی ترسیل میں سب سے آگے بھارتی جنتا پارٹی کا سوشل میڈیا ونگ نظر آتا ہے۔ اسکرول انڈیا کے مطابق 17 سے زیادہ جعلی اور غلط خبریں اس پلیٹ فارم سے پھیلائی گئیں۔ پھر ریپلیکن ٹی وی اور ارنب گوسوامی کی جعلی خبریں تو اب بچہ بچہ جانتا ہے۔

ٹائمز ناؤ کی رپورٹ میں پاکستان پر الزام لگتا رہا کہ وہ فیک نیوز چلا رہا ہے مگر خود ان کے میڈیا پر پروپیگنڈا خبروں کی کمی نہیں۔ جب اُڑی حملے کے بعد پاکستان نے غیر ملکی سفارتکاروں کو کشمیر کا دورہ کروایا اور بھارتی دعوؤں کی قلعی کھولی، اور ان سفارتکاروں نے اپنے ملکوں میں اس حوالے سے بات کی تو بھارتی میڈیا نے سفارتکاروں پر پاکستانی حکومت سے پیسے لینے کا الزام لگادیا۔ جہاں پاکستان میں ففتھ جنریشن وار کے حوالے سے بات کی جاتی ہے وہیں حال ہی میں بھارت نے بھی کئی یوٹیوب چینل اور اکاونٹ کو بند کیا ہے۔ ان میں اکثریت بھارتی یو ٹیویب نیوز چینل اور فیس بک صفحات کی تھی اور چند پاکستانی نیوز چینل بھی تھے۔ نئی دہلی کا کہنا تھا کہ انہیں اس لیے بند کیا گیا کیونکہ وہ فیک نیوز پھیلا رہے تھے۔

صحافی حضرات کیا کہتے ہیں ؟

بینا سرور پاکستانی صحافی ہیں اور انسانی حقوق کے حوالے سےجانی جاتیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صحافی کا کام ہے کہ وہ خبر کو غیر جانبدارانہ انداز میں پیش کرئے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ فیک نیوز یا مس انفارمیشن کو روکنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ خبر مکمل اور تصدیق شدہ ہو۔ صحافی اپنا کام ذمہ داری سے ادا کرتے رہیں گے تو ہی غلط خبر کو پھیلنے سے روکا جاسکے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ جعلی اور غلط خبریں دونوں طرف بہت زیادہ ہیں۔ غلط فہمی اور جھوٹ کو لوگوں کے آپس کے تعلقات سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ ایسی خبریں تو بنتی رہتی ہیں لیکن اگر عوامی رابطے ہوں گے تو لوگ سوشل میڈیا کے بجائے آپس میں زیادہ اعتماد کریں گے۔ ہم ایک خطے کے لوگ ہیں، سب ایک دوسرے سے ملنا چاہتے ہیں اور ہمیں ملنا بھی چاہیے۔

اسلام آباد میں نجی ٹی وی سے منسلک اعجاز احمد سمجھتے ہیں کہ زمانہ قدیم سے ایک دوسرے کونیچا دکھانے کے لیے پروپیگنڈے کو اہمیت حاصل ہے اور یہ رویہ آج بھی جاری ہے۔ جعلی خبروں کی بنیادی وجہ تو دشمن کو بدنام کرنا اور اس کے مقابلہ میں اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بناناہے۔ ساتھ ساتھ دشمن کے حوصلے پست کرنے کی حکمت عملی بھی اس مہم کا حصہ ہوتی ہے۔ اس کی بہت ہی واضح مثال پاکستان اور بھارت ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں اسے خاص طور پر ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے رائے عامہ تبدیل کی جاتی ہے۔ اب تک درجنوں واقعات میں بھارت، پاکستان کے خلاف فیک نیوز کا سہارا لیتا رہا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح مشرقی پاکستان میں بھارتی پروپیگنڈا مشینری نے فیک نیوز کا بہت استعمال کیا تھا۔ ڈس انفو لیب کا معاملہ تو پچھلے سال ہی کی بات ہے۔ جب بھارت یہ سب کرتا ہے تو پاکستان اس کے جواب میں حقیقت بیان کرتا ہے ۔ لیکن بھارتی میڈیا کی آواز پر دنیا زیادہ توجہ دیتی ہے اور اب سوشل میڈیا کی ترقی نے لوگوں کے ہاتھوں میں فیک نیوز پھیلانے کا ایک بڑا موثر ہتھیار تھمادیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اسے کنٹرول کرنا بہت ہی مشکل ہے، ہاں مسئلہ کشمیر حل ہو اور دونوں ملکوں کی دشمنی ختم ہو جائے تو الگ بات ہے لیکن فی الحال تو یہ ممکن نہیں۔

اعجاز احمد بھی بینا سرور کی بات کی تائید کرتے ہیں کہ پھر بھی فیک نیوز کا تدارک یا اس کے اثرات کم کرنے میں سول سوسائٹی اور صحافیوں کا بڑا اہم کردار ہے۔ کیونکہ وہ حقائق سامنے لاسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے انہیں مکمل پروفیشنل بننا ہوگا۔

پچھلے ماہ میں ہی انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں فیکٹ چیک کیا گیا تھا کہ شمالی وزیر ستان میں ہونے والے حالیہ تصادم میں کئی پاکستانی فوجی ہلاک ہوگئے۔ ٹوئٹر اکاونٹ سے جاری خبر اور تصویر جعلی اور جھوٹ پر مبنی تھی۔ کیونکہ وہ 2011 کی تصویر تھی۔ اگر صحافی چاہیں تو فیک نیوز یا نامکمل اور غلط خبروں کو اس طرح روک سکتے ہیں۔

عوامی رابطے: جعلی اور گمراہ کن خبروں کا واحد حل

ہم نے دیکھا تھا کہ کورونا کے دوران جب بھارت میں تیزی کے ساتھ اموات ہونا شروع ہوئیں تو حالات اس حد تک خراب ہوگئے تھے کہلوگ اپنے پیاروں کو دریائے گنگا میں بہانے لگے۔ دریا میں تیرتی لاشیں دیکھ کو بھارت میں ہی لوگوں کی روح نہیں کانپی بلکہ پاکستانیوں نے بھی دعائے خیر اور خیر سگالی کے پیغامات بھیجے۔ آکسیجن یا دیگر میڈیکل سہولیات کی کمی کی خبر کو پاکستانی ٹوئٹر اکاؤنٹس نے ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھایا تاکہ لوگوں کی مدد کی جاسکے۔ اُس وقت نن کوئی ہندوستانی تھا نہ پاکستانی بلکہ صرف عام آدمی کی مدد کا جذبہ تھا جسے ساری دنیا نے سراہا۔

بھارت میں بھی ایسے کئی لوگ اور پلیٹ فارم ہیں جو سوشل میڈیا پر مثبت اور خیر سگالی کے جذبے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک ٹونی اگروال ہیں جو بھارتی شہر ناسک کے رہائشی ہیں۔ وہ انڈو پاک بُک لور کے نام سے فیس بک پیج چلاتے ہیں۔ ان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کوئی بھی خبر فیک نیوز لگتی ہے تو ہم اس کا سورس دیکھتے ہیں کہ جس حوالے سے خبر کہی جارہی ہے، وہ ہے کون اور کیا کہہ رہا ہے۔ پھر جب ہمیں کسی خبر پر شک ہو تو ہم ان لوگوں سے بات کرتے ہیں پر جن پر ہمیں اعتماد ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اچھی بات یہ کہ ہمارے پاس انڈو پاک بُک لور کے پلیٹ فارم کی وجہ سے اچھے تعلق اور دوستی ہو چکی ہے ۔جس کی وجہ سے ہم خبر کی تصدیق کر لیتے ہیں۔ ٹونی اگروال کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے پلیٹ فارم نے ادب اور کتب بینی کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان مکالمے کی فضا قائم کرلی ہے جہاں ہم دونوں ملکوں کے لوگ آپس میں کھل کر بات کرتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ جب کوئی بھی فیک نیوز یا مس انفارمیشن یا پھر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہو تو ہم اپنے قریبی دوستوں سے اس کی تصدیق کرلیتے ہیں۔ فیک نیوز کو روکنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ قابل اعتماد ذرائع موجود ہوں جن سے آپ خبر کی حقیقت جان سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپس میں اچھے تعلقات ہوں۔

ٹونی نے گزشتہ سال کی ایک خبر کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اس خبر میں کہا جارہا تھا کہ سندھ میں ایمرجنسی لگا دی گئی ہے تو ہم نے اس حوالے سے کراچی میں اپنے دوستوں سے بات کی۔ اس کے علاوہ کہ جب نور مقدم کیس چل رہا تھا تو ہم نے صحافی شازمان شریف سے رابطہ کیا اور کیس سے متعلق حقیقی خبر تلاش کرنے کی کوشش کی۔ دونوں طرف ہی فیک اور غلط خبریں عام ہیں۔ ٹونی بھی سمجھتے ہیں کہ یقینی طور پر لوگوں کے آپس کے تعلق سے ہی غلط خبر کو روکا جاسکتا ہے۔

اسی طرح پاکستان انڈیا ہیرٹیج کلب بھی مثبت اثرات ڈال رہا ہے۔ آج کل اس کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹ توشی آنٹی کو پاکستانی ویزا نہ ملنے کی خبر ہے۔ 89 سالہ توشی آنٹی بھارتی شہر پونا میں رہتی ہیں لیکن اپنی سالگرہ اپنے جائے پیدائش راولپنڈی میں اپنے آبائی گھر میں منانا چاہتی ہیں۔ اس گھر کو وہ تصویروں میں سجاد حیدر صاحب کی بدولت دیکھ چکی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہی ان کے ویزے کے لیے مہم چلائی گئی اور اب انہیں پاکستانی ہائی کمشن نے ویزہ جاری کر دیا ہے، یوں وہ راولپنڈی کے آبائی گھر دیکھ سکیں گی۔ وہ اس پر بہت خوش ہیں۔ توشی آنٹی پاکستانی حکومت اور لوگوں کی شکرگزار ہیں جنہوں نے ان کی اس حوالے سے مدد کی۔

دیویکا متّل بھارتی نوجوان ہیں۔ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پر امن تعلقات کی حامی ہیں ، تاکہ عوامی سطح پر لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ وہ 'آغازِ دوستی' کے نام سے ایک رابطہ مہم بھی چلاتی ہیں۔ غلط خبروں اور جھوٹ پر مبنی معلومات کے فروغ کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ہمارے خطے میں لوگ سیاسی معلومات زیادہ رکھتے ہیں۔ لوگ آپس میں مل نہیں سکتے اس لیے میڈیا ہی ان کے درمیان رابطے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ وہ ایک دوسرے کے بارے میں بس اتنا ہی جانتے ہیں جو میڈیا پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے فیک نیوز اور مس انفارمیشن تیزی سے پھیلتی ہیں۔ جانبدار میڈیا جب چھوٹی سی بات کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرے گا تو بات تو طوفان اٹھائے گی اور متعصبانہ رائے قائم کی جائے گی۔ اگر لوگوں میں رابطہ ہوگا تو وہ ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ اس لیے عوامی رابطہ اور سفارت کاری ہی امن کی بنیاد ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024