ایشیائی ممالک عالمی طاقتوں کے 'شطرنج کے مہروں' کی طرح استعمال نہ ہوں، چین
چین کے وزیرخارجہ وینگ یی نے کہا ہے کہ خطے کے ممالک خود کو عالمی طاقتوں کے 'شطرنج کے مہرے' کے طور پر استعمال ہونے سے بچائیں جبکہ جیوپالیٹیکل عوامل کی وجہ سے خطے کی صورتحال تبدیل ہونے کا خطرہ ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق انڈونیشیا میں جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم (آسیان) کے سیکرٹریٹ سے خطاب کرتے ہوئے وینگ یی نے کہا کہ خطے کے بہت سے ممالک پر فریق بننے کے لیے دباؤ ہے۔
اپنے مترجم کے ذریعے بات کرتے ہوئے چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ بڑی طاقتوں کی دشمنی اور جبر سے شطرنج کے مہروں کے طور پر استعمال ہونے سے بچنے کے لیے ہمیں اس خطے کو جغرافیائی سیاسی اعتبار سے الگ رکھنا چاہیے، جبکہ ہمارے خطے کا مستبقل ہمارے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔
مزید پڑھیں: چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکا اس کا دفاع کرے گا، بائیڈن
جنوب مشرقی ایشیا اپنی اسٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر طویل عرصے سے بڑی طاقتوں کے درمیان تصادم کا مرکز رہا ہے، اس خطے کے ممالک اب امریکہ اور چین دشمنی کے بیچ میں پھنسنے سے محتاط ہیں۔
چین تقریباً پورے جنوبی بحیرہ چین پر اپنے حدود میں ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جس کی بنیاد پر اس کا کہنا ہے کہ یہ تاریخی نقشے ہیں، جسے آسیان کے کچھ ممالک سے متصادم قرار دیتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ چین کے ایسے دعوے بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتے۔
چینی وزیر خارجہ وینگ کی یہ تقریر بالی میں جی 20 وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے چند دن بعد سامنے آئی ہے اور چین کی سفارت کاری کے درمیان جس نے انہیں حالیہ ہفتوں میں پورے خطے میں دوروں پر مصروف رکھا ہے۔
جی 20 کے سائیڈ لائن پر وینگ نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے ساتھ پانچ گھنٹے کی میٹنگ کی جس میں دونوں نے اکتوبر کے بعد اپنی پہلی ذاتی بات چیت کو 'صاف' قرار دیا۔
وینگ نے پیر کو کہا کہ انہوں نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے کہا ہے کہ دونوں فریقین کو مثبت بات چیت کے لیے قواعد کے قیام اور ایشیا پیسیفک میں مشترکہ طور پر علاقائیت کو برقرار رکھنے پر بات کرنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: چین، **تائیوان کے معاملے پر جنگ شروع کرنے پر ہرگز نہیں ہچکچائے گا، چینی وزیر دفاع**
وینگ نے کہا کہ بنیادی عناصر آسیان کی مرکزیت کی حمایت کرنا، موجودہ علاقائی کارپوریشن کے فریم ورک کو برقرار رکھنا، ایشیا پیسفک میں ایک دوسرے کے جائز حقوق اور مفادات کا احترام کرنا ہے بجائے اس کے کہ دوسرے فریق کی مخالفت یا اس پر قابو پانا۔
اپنی تقریر کے بعد تائیوان کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں وینگ نے کہا کہ واشنگٹن ون چین پالیسی کو توڑ مروڑ کر کھوکھلا کر کے چین کی ترقی کو روکنے کے لیے تائیوان کارڈ کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بیجنگ اور تائی پے کے درمیان حالیہ مہینوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ چین کی فوج نے آبنائے تائیوان پر بار بار فضائی مشنز کیے جو کہ تائیوان جزیرے کو چین سے الگ کرنے والی آبی گزرگاہ ہے۔
چین تائیوان کو اپنا 'مقدس' علاقہ سمجھتا ہے اور اس نے جزیرے کو اپنے ماتحت لانے لانے کے لیے طاقت کے استعمال سے کبھی دستبردار نہیں ہوا، تائیوان کا کہنا ہے کہ وہ امن چاہتا ہے لیکن اپنے مستقبل کا فیصلہ صرف اس کے عوام ہی کر سکتے ہیں۔
تاہم، واشنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ون چین پالیسی پر پابند ہے اور تائیوان کی آزادی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، لیکن امریکہ کو تائیوان کے ساتھ تعلقات کے قانون کے تحت تائیوان کو اپنا دفاع کرنے کے ذرائع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: چین امریکا جنگ اور بنتے بگڑتے بین الاقوامی اتحاد
وینگ نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ آبنائے (تائیوان) کے دونوں اطراف پرامن ترقی سے لطف اندوز ہوں گے لیکن اگر ون چائنا کے اصول کو من مانی کے طور پر چیلنج کیا جائے گا اور سبوتاژ کیا جائے گا تو آبنائے پر سیاہ بادل ہوں گے یہاں تک کہ شدید طوفان بھی ہوں گے۔
تائیوان کی وزارت خارجہ نے وینگ کے تبصروں کو 'مضحکہ خیز' قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
تائیوان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ تائیوان آمرانہ توسیع کے خلاف مزاحمت کرنے میں سب سے آگے ہے اور چینی حکومت کی طرف سے طاقت کا استعمال کرنے جیسی دھمکیوں کے سامنے نہیں جھکے گا۔