• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل اڈیالہ جیل سے پمز ہسپتال اسلام آباد منتقل

شائع August 18, 2022
—فائل فوٹو: ڈان
—فائل فوٹو: ڈان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے زیر حراست رہنما شہباز گِل کو اڈیالہ جیل سے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) ہسپتال اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔

ڈاکٹر شہباز گل کو اڈیالہ جیل سے پمز ہسپتال کی ایمبولینس میں وارڈ منتقل کر دیا گیا اور اس دوران شہباز گل کو آکسیجن لگی ہوئی تھی۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما اعجاز چوہدری پمز ہسپتال پہنچ گئے اور وفاقی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور شہباز گل کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔

قبل ازیں، عدالت نے شہباز گل کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کی منظوری دیا تھا، جس کے بعد اسلام آباد پولیس شہباز گل کو لینے اڈیالہ جیل پہنچی تھی۔

اسی دوران بتایا گیا تھا کہ اڈیالہ جیل کے حوالات میں شہباز گل کی طبعیت ناساز ہو گئی اور انہیں جیل کے اندر ہسپتال منتقل کر دیا گیا یے۔

جیل ہسپتال میں موجود ڈاکٹروں کی جانب سے شہباز گل کا طبی معائنہ کیا گیا، جس کے بعد ڈاکٹروں کے مشورے پر شہباز گل کو جیل سے باہر ہسپتال منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گِل کو دوبارہ جسمانی ریمانڈ پر بھیجنے کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج

دوسری جانب اسلام آباد پولیس بھی شہباز گل کو جسمانی ریمانڈ پر واپس لانے کے لیے جیل میں موجود رہی۔

بعد ازاں، پمز ہسپتال کی ایمبولینس اڈیالہ جیل پہنچی اور انہیں وہاں سے منتقل کیا گیا۔

ادھر راولپنڈی کے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں عملے کو بھی ہائی الرٹ کردیا گیا تھا جبکہ راولپنڈی پولیس اور راولپنڈی ایلیٹ فورس اسکواڈ بھی اڈیالہ جیل پہنچ گیا تھا۔

عدالتی فیصلے کے تحت شہباز گل کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنے کے معاملے میں اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس کے مزید اہلکار اڈیالہ جیل پہنچے تو اڈیالہ جیل کے باہر سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی اور جیل کے گیٹ نمبر 5 کا داخلی راستہ بند کر دیا گیا۔

جس کے بعد ڈی آئی جی اسلام آباد سہیل ظفر چٹھہ بھی اڈیالہ جیل پہنچے تھے۔

مزید پڑھیں: شہباز گل مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے

سی پی او راولپنڈی سید شہزاد ندیم بخاری بھی مزید نفری کے ہمراہ اڈیالہ جیل پہنچے، اڈیالہ جیل انتظامیہ، راولپنڈی اور اسلام آباد پولیس کے درمیان گیٹ نمبر 5 کے داخلی دروازے پر جھگڑا ہوا، اداروں کے اہلکاروں کی ایک دوسرے سے شدید تلخ کلامی ہوئی۔

جیل انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے میڈیا کو کوریج سے روکنے کی کوشش کی گئی، داخلی دروازے پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔

بعد ازاں شہباز گل کو اسلام آباد پولیس کے حوالے کر دیا گیا جبکہ راولپنڈی پولیس کے اہلکار اڈیالہ جیل سے واپس چلے گئے۔

خیال رہے کہ آج اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے رہنما پی ٹی آئی شہباز گِل کے مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست منظور کی تھی۔

ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پولیس کی فوجداری نگرانی کی اپیل منظور کی۔

فیصلے کے مطابق شہباز گل کو مزید 48 گھنٹوں کے لیے پولیس کے حوالے کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گل کے مزید جسمانی ریمانڈ کی حکومتی درخواست قابل سماعت قرار

قبل ازیں عدالت نے شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کے حکم کے خلاف نظرثانی درخواست پر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سماعت کے دوران اسپیشل پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی اور ملزم شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے اپنے دلائل پیش کیے۔

سماعت کے آغاز میں پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے مقدمے کا متن پڑھ کر عدالت کو سنایا۔

انہوں نے کہا کہ شہباز گِل کی گرفتاری کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے 2 روز کا جسمانی ریمانڈ دیا، تفتیشی افسر کی جانب سے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزم بار بار جھوٹ بول رہا ہے، پولی گرافک ٹیسٹ کروانا ہے، پولیس کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کو جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر نے مسترد کیا، ملزم سے اس کا موبائل فون برآمد کرنا ہے جس میں سارا مواد موجود ہے۔

پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے کہا تھا کہ تفتیشی افسر نے واضح طور پر لکھا کہ محض ریکوری نہیں بلکہ مختلف پہلوؤں پر تفتیش بھی کرنی ہے، ملزم کا موبائل فون اس کے ڈرائیور کے قبضے میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیوٹی مجسٹریٹ کو تمام پہلوؤں کو دیکھنا چاہیے تھا لیکن استدعا مسترد کردی گئی، کس نے ملزم کے اسکرپٹ کی منظوری دی؟ ابھی تفتیش کرنا باقی ہے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا تھا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے لکھا کہ شہباز گل نے کہا کہ اس کا موبائل ان کے پاس نہیں بلکہ ڈرائیور کے پاس ہے، جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم کے بیان کو حتمی کیسے مان لیا؟ قانون شہادت کے مطابق یہ درست نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024