توہین مذہب کے واقعات اور ہمارا اجتماعی رویہ

شائع August 24, 2022

21 اگست کو حیدرآباد میں توہین مذہب سے متعلق ایک واقعہ پیش آیا، جس میں قرآن پاک کی مبیّنہ بے حرمتی کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں شدید کشیدگی پھیل گئی۔

اس واقعے کے شکایت کنندہ کے مطابق اسے پتا چلا تھا کہ رابی پلازہ میں کسی نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے۔ معاملے کا پتا لگانے کے لیے وہ پلازہ کے اندر گئے تو معلوم ہوا کہ قرآن پاک کے نسخے کو کسی نے جلا دیا ہے۔ انہوں نے وہاں موجود سینیٹری ورکر سے پوچھا کہ کیا مقدس کتاب انہوں نے جلائی ہے؟ اس پر سینیٹری ورکر نے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ جلے ہوئے اوراق اور سینیٹری ورکر کو لے کر تھانے پہنچے اور پولیس کے حوالے کردیا۔

سوشل میڈیا پر وائرل اس واقعے کی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ حیدرآباد صدر میں واقع رہائشی عمارت رابی پلازہ کے باہر درجنوں کی تعداد میں لوگ جمع ہیں اور اندر داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی واقعے کی دوسری ویڈیو میں پولیس اور رینجرز کی جانب سے ہجوم پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کی جارہی ہے۔

توہین مذہب کا ایک اور واقعہ پچھلے سال جنوری میں پیش آیا۔ کراچی کی ایک خبر مختلف واٹس ایپ گروپوں کا حصہ بنی جس میں کہا جارہا تھا کہ ایک مقامی اسپتال کی 2 نرسوں کے درمیان جھگڑا بڑھا اور ایک نرس نے دوسری نرس پر توہین مذہب کا الزام عائد کردیا۔

اچھی بات یہ رہی کہ یہ خبر کراچی کی شہ سرخیوں کا حصہ نہیں بن سکی۔ سماجی اداروں اور انتظامیہ کی معاملہ فہمی نے اس خبر کے نتیجے میں ہونے والا تصادم یا حادثہ بروقت روک لیا۔ وہ الزام درست نہیں تھا بلکہ غلط فہمی اور بدگمانی پر مبنی تھا یا آج کی زبان میں کہیں تو فیک نیوز پر مبنی تھا۔

بات اسپتال انتظامیہ سے نکل کر تھانے تک بھی پہنچی۔ ایف آئی آر بھی کٹی لیکن خبر کی تصدیق اور حقیقت جاننے کے بعد ایف آئی آر خارج کردی گئی۔ یہاں اسپتال انتظامیہ اور پولیس کی کارکردگی بھی قابلِ تعریف ہے اور میڈیا کا کردار بھی اہم رہا کیونکہ کئی ذرائع سے یہ خبر ملنے کے باوجود اسے چلانے سے پہلے تصدیق کی گئی۔

ذرا سوچ کر دیکھیں کہ اگر سماجی اور انتظامی ادارے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے تو کراچی شہر میں بھی سیالکوٹ اور میاں چنوں جیسا حادثہ ہونا ناممکن نہیں تھا۔ ایسا ہی بروقت انتظام 14 فروری کو فیصل آباد میں بھی کرلیا گیا جبکہ 13 فروری کو ہی خانیوال میں توہین مذہب کے الزام میں ایک فرد کی موت ہوچکی تھی۔ وہاں بھی پولیس نے اپنا کردار ادا کیا اور پاکستان کا پُرامن چہرہ خراب کرنے والی ایک اور خبر بننے سے بچا لیا۔

ہم نے دیکھا ہے کہ پچھلے چند ماہ میں ہمارے ملک میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں ہجوم کے ہاتھوں بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ وہ سری لنکن شہری کی ہجوم کے ہاتھوں موت ہو یا میاں چنوں میں ہونے والا واقعہ جس میں ذہنی مریض کو توہین مذہب کے الزام میں بے دردی کے ساتھ قتل کردیا گیا۔

کوئی شخص اس کی توجیہ پیش نہیں کرسکتا۔ سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ ظلم ہے اور ناقابلِ معافی ہے۔ ان واقعات سے ملک میں مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہر واقعے کے بعد سرکاری سطح پر اس واقعہ کی مذمت کی جاتی ہے۔

توہین مذہب کا قانون ہے کیا؟

محمد فاروق ایڈووکیٹ نے بتایا کہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 میں ‘توہین مذہب’ پر بات کی گئی ہے۔ اس قانون کے مطابق کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کی توہین یا بے حرمتی پر 2 سال قید یا جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

295 اے کے تحت کسی بھی پاکستانی کے مذہبی عقائد اور مذہبی جذبات کی توہین نہیں کی جاسکتی۔ اس جرم کی سزا 10 سال قید یا جرمانہ ہے۔ دفعہ 295 بی کی رو سے قرآن کریم کی توہین کی سزا عمر قید ہے اور 295 سی کے تحت توہین رسالت کی سزا ‘سزائے موت’ ہے۔ ساتھ ہی 296 میں کسی بھی مذہبی اجتماع میں رکاوٹ ڈالنے کی سزا ایک سال قید ہے۔

ہجوم کے ہاتھوں ہونے والی اموات کے بڑھتے واقعات کیوں؟

تازہ ترین واقعات سے یہی سمجھ آتا ہے کہ اگر انتظامیہ اور سماجی ادارے اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کریں گے تو ان حادثات سے بچا جاسکتا ہے۔ معاشرے کے سب کرداروں کو مل کر پہلے اس مرض کی جڑیں تلاش کرنی چاہئیں تاکہ مسئلے کو اس کی بنیاد سے حل کیا جاسکے۔ ہمیں سمجھنا اور سمجھانا ہوگا کیونکہ اس طرح کی خبریں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔

عظمیٰ نورانی، سابق شریک چیئرمین ہیومن رائٹس کمیشن ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ہجوم کے ہاتھوں ہونے والی اموات کی تعداد جس تیزی سے بڑھ رہی ہے، اس کی روک تھام ضروری ہے۔ سرکاری سطح پر ہونے والی بیان بازی سے آگے بڑھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ہجوم ایک دم بپھر جاتا ہے اور اسے کنٹرول کرنا مشکل تر ہوجاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا بلکہ ایک پوری سوچ اور سوچی سمجھی ترکیب ہوتی ہے۔ جب کوئی شوشہ چھوڑا جاتا ہے تو بات اتنی سنگین نہیں ہوتی صرف سامنے والے کو چوٹ لگانی ہوتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بات ہوتے ہوتے قابو سے باہر چلی جاتی ہے تو پھر ہجوم کسی کی بات نہیں سنتا۔

عظمیٰ نے بتایا کہ ہمیں اب ان پہلوؤں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کے واقعات پے درپے کیوں ظہور پذیر ہورہے ہیں۔ اصل سوال تو یہی ہے کہ عام آدمی قانون کو کب ہاتھ میں لیتا ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب وہ پولیس اور نظامِ عدل پر یقین رکھنا چھوڑ دیتا ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں کجی ہے جس کی وجہ سے مجرم کو بچا لیا جاتا ہے۔

انتہا پسندی کو بھی معاشرے میں خوب راسخ کردیا گیا ہے۔ ہمارے لوگوں نے بھی ایک خاص سوچ کے ساتھ ان واقعات پر ردِعمل دینا شروع کردیا ہے۔ مذہبی کارڈ سیاست کا اہم جز بن گیا جس سے سماج اور سیاست میں ایک خاص مذہبی طبقہ پیدا ہوگیا۔ یہ طبقہ خود کو 100 فیصد درست سمجھتا ہے لہٰذا اس کے لیے ہمیں معاملہ فہم، سنجیدہ اور صاحبِ علم، دینی اور سماجی رہنماؤں کی ضرورت ہے۔

سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں سری لنکن شہری ہجوم کے تشدد سے ہلاک ہوا— تصویر: ڈان نیوز
سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں سری لنکن شہری ہجوم کے تشدد سے ہلاک ہوا— تصویر: ڈان نیوز

ان واقعات کو ہونے سے کیسے روکیں؟

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی معاشرتی سوچ کو کس طرح بہتر کرسکتے ہیں کہ ایک عام آدمی قانون کو ہاتھ میں نہ لے؟ سوہائے عزیز ایس ایس پی کراچی شرقی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اس طرح کے واقعات بڑھنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ سرکاری سطح پر قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے ساتھ سختی نہیں برتی جاتی بلکہ نرمی برتتے ہوئے صرف مذمتی بیان جاری کردیا جاتا ہے۔ سیاستدان، مذہب اور انتہا پسندی پر کھل کر بات نہیں کرتے، وہ ڈرتے ہیں جس سے بروقت فیصلے نہیں لیے جاتے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عوامی سطح پر اس طرح کے واقعات پر اس قسم کا ردِعمل بڑھتا جارہا ہے۔

ایس ایس پی عارف عزیز، اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ محکمہ پولیس میں ہجوم کو کنٹرول کرنے کی خصوصی تربیت نہیں کروائی جاتی۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ دیگر کورسز میں ہم اپنے جوانوں کو اس حوالے سے تیار کرتے رہتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے دیگر شہروں کے مقابلے میں کراچی شہر میں ہجوم کے مزاج کا بھی فرق ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اس قسم کے کسی بھی واقعے پر مکمل گرفت رکھیں۔ توہین مذہب ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس میں عوامی سطح پر بہت زیادہ ردِعمل آتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی بھی کہ ہمارے معاشرے کے سب کردار مذہبی انتہا پسندی کو روکیں۔ اس حوالے سے پولیس بھی اپنا کام کرتی ہے۔

زہرہ یوسف، انسانی حقوق کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔ ان کا ہجوم کے ہاتھوں تشدد اور ہلاکتوں کے حوالے سے کہنا ہے کہ ہماری حکومتوں نے اس پر نرمی برتی جس کی وجہ سے یہ مسئلہ ایسی سنگین صورت اختیار کرچکا ہے کہ اب اس جن کو بوتل میں قید کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومتی سطح پر ہجوم کے ہاتھوں ہونے والے تشدد پر سخت اور فوری احکامات جاری کیے جائیں جیسا کہ سری لنکن شہری کی ہلاکت کے موقع پر کیا گیا۔

بے قابو ہجوم نے صرف توہین مذہب کے الزام میں ہی لوگوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا بلکہ دیکھا گیا ہے کہ کسی چور کے پکڑے جانے پر بھی عوامی ردِعمل کچھ ایسا ہی آیا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ لوگوں نے اسے رسیوں سے جکڑ کر بجلی کے کھمبے سے باندھ دیا اور اس وقت تک تشدد کرتے رہے جب تک وہ مر نہیں گیا۔ یقیناً اس قسم کا شدید ردِعمل اس وقت ہی ممکن ہے جب لوگ پولیس اور عدالت پر یقین کھو بیٹھتے ہیں۔

محمد فاروق ایڈووکیٹ کی رائے بھی کچھ یہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بے قابو ہجوم کو روکنا پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے کسی بھی حصے میں ممکن نہیں خاص کر جب اس میں توہین مذہب کا پہلو شامل ہوجائے۔ اس حوالے سے ہمیں بھارت اور میانمار میں کئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایشائی ممالک سے لے کر یورپ تک مذہب اور سیاست دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، ایسا ہونا نہیں چاہیے لیکن ایسا ہی ہورہا ہے۔

ان واقعات میں میڈیا کا کردار بھی انہتائی اہم ہے چاہے وہ سوشل میڈیا ہو یا مین اسٹریم میڈیا۔ سینیٹ کی کمیٹی میں بھی کہا گیا کہ ہجوم میں سب سے زیادہ نوجوان موجود ہوتے ہیں اور یہی طبقہ سوشل میڈیا سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ لہٰذا میڈیا کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ تحقیقاتی صحافت میں ایک نمایاں نام طارق معین کا بھی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس طرح کی خبریں مکمل تصدیق کے بغیر نشر نہیں کی جاتیں۔ یہ ایک سنجیدہ اور حساس موضوع ہے۔ ہم صحافتی اقدار کی روشنی میں کسی بھی خبر کو مکمل تحقیق کے بعد ہی آگے بڑھاتے ہیں۔

جب مذہب کا پہلو شامل ہو تو ہجوم کو روکنا مشکل ہوتا ہے— تصویر: ڈان نیوز
جب مذہب کا پہلو شامل ہو تو ہجوم کو روکنا مشکل ہوتا ہے— تصویر: ڈان نیوز

ہیومن رائٹس آبزرور 2022ء رپورٹ کیا کہتی ہے؟

کونسل آف سوشل جسٹس کی ہیومن رائٹس آبزرور 2022ء رپورٹ کے مطابق، پاکستان پینل کوڈ کے تحت2021ء میں کُل 84 افراد پر توہین مذہب کا الزام لگا جن میں 77 مرد، 6 عورتیں اور 1 مخنث شامل ہے۔ اس کے علاوہ 3 افراد کو توہین مذہب کے نام پر قتل کردیا گیا۔ اس میں ہجوم کے ہاتھوں مرنے والے سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سب سے زیادہ مذہبی تشدد کے 68 واقعات پنجاب کے جنوبی شہروں میں رونما ہوئے۔ ان واقعات کے حوالے سے شیخوپورہ میں 13، لاہور میں 11 اور قصور میں 10 ملزمان سامنے آئے۔ساتھ ہی رپورٹ میں پچھلے 34 سال کے ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 75 فیصد توہین مذہب کے کیسز پنجاب میں درج کیے گئے۔ مزید یہ کہ 45 مسلم، 25 احمدی اور 7 دیگر مذاہب کے افراد کو اس الزام کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021ء میں مذہب کی جبری تبدیلی کے کُل 78 واقعات سامنے آئے۔

مذہبی ہم آہنگی اور انصاف کے حوالے سے کام کرنے والی سماجی تنظیم سے منسلک ناصر ولیم نے اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے رویے اور گفتگو کا معیار بہت گرچکا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمارے ذاتی مفادات، حسد، لالچ، نفرت اور شدت پسندانہ سوچ نے ایک عام انسان کو غیر محفوظ بنا دیا ہے جس کی مثال ہمیں توہین مذہب کے واقعات میں نظر آتی ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ قانون کا غلط استعمال زیادہ کیا جارہا ہے جہاں آپس کی رنجشیں اور غصہ توہین مذہب کے نام پر نکالا جارہا ہے۔ انہوں نے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں توہین رسالت کے نام پر معلمہ کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تشدد اور مذہبی عدم برداشت کی وجہ سے ایک خاتون نے اختلاف کی وجہ سے اپنے ہی خاندان کی خاتون اور معلمہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اداروں کو اپنی ذمہ داری بلا تفریق اور مؤثر طریقے سے ادا کرنی ہوگی۔

سکھر کا واقعہ ہمارے سامنے ایک اور مثال ہے جہاں نوجوان ہندو لڑکی پوجا کماری کو اغوا کی کوشش ناکام ہونے پر اس کے گھر میں قتل کردیا جاتا ہے کیونکہ وہ زبردستی شادی اور تبدیلی مذہب کے لیے تیار نہیں تھی۔

ہمیں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو ہر سطح پر فروغ دینا ہوگا اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ہمیں دفتروں اور اداروں کے لیے ایک ضابطہ اخلاق بنانے اور اس پر عمل کروانے کی ضرورت ہے۔ اس کے تمام نکات نمایاں طور آویزاں کیے جائیں تاکہ سب ان نکات سے بخوبی واقف ہوں۔

ایک زمانہ یہ بھی تھا کہ جب بازار کی دوکانوں اور دفاتر میں لکھا ہوتا تھا کہ یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ ہر درس گاہ، اسپتال اور زندگی کے ہر شعبے میں مذہبی گفتگو پر پابندی ہونی چاہیے تاکہ ناخوشگوار واقعات میں کمی لائی جاسکے۔

2021ء میں مذہب کی جبری تبدیلی کے 78 واقعات سامنے آئے
2021ء میں مذہب کی جبری تبدیلی کے 78 واقعات سامنے آئے

سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی رپورٹ

پے درپے ہونے والے واقعات کے بعد 25 فروری کو ہونے والے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں بتایا گیا کہ توہین مذہب کے الزام پر ہونے والے تشدد کے واقعات میں سوشل میڈیا اور نوجوانوں کا کردار سب سے زیادہ اہم رہا۔ ہجوم کی ویڈیو اور تصاویر کی جانچ پڑتال کے بعد عمروں کا تعین 18 سے 30 سال کیا گیا۔ اجلاس میں شریک ڈی پی او خانیوال نے بتایا کہ میاں چنوں میں ہونے والے واقعے میں مسجد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مسجد سے ہی اعلان کرکے مقامی آبادی کو اکسایا گیا۔ اس اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس سال کے ابتدائی 2 ماہ میں اس قسم کے 14 واقعات رپورٹ کیے جاچکے ہیں۔

اس خبر کے بعد مذہبی ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کے مذہبی حلقے اپنا کردار ادا کریں۔ پچھلے دنوں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بھی کُھل کر توہین مذہب کے ملزم پر تشدد کرنا خلافِ شریعت قرار دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کے واقعات میں ملوث ملزمان کو جلد سے جلد سزا ملنی چاہیے تاکہ عوام تک یہ پیغام جائے کہ قانون کو ہاتھ میں لینا درست نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ توہین مذہب کے حقیقی ملزمان کو سزا نہ ملنا بھی تشدد کے رجحان کو بڑھا رہا ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز نے زور دیتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم اور احادیث میں کئی جگہ احترام انسانیت کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان ان احکامات کا احترام کرنا چاہیے اور اپنی عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں میں ان احکامات کی ترویج کرنی چاہیے تاکہ عوام قانون کو ہاتھ میں لینے سے پہلے سوچیں کہ یہ اسلامی اقدار کی نفی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں ہونے والے پے درپے واقعات کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ فیک نیوزمیڈیا کا حصہ نہ بنے کیونکہ ہماری ذرا سی کوتاہی سے کسی کی جان بھی جاسکتی ہے اور شہر میں مذہبی منافرت پھیل سکتی ہے۔ یہ ہماری اہم ذمہ داری ہے کہ ہم اس حوالے سے احتیاط سے کام لیں۔

شیما صدیقی

شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

Salman Atique Aug 24, 2022 08:33pm
Very important topic and reflected here effectively. Good work!
شیما Aug 24, 2022 10:06pm
Thanks ....
Ahsan Abro Aug 25, 2022 12:01am
Good work shima
بینش Aug 25, 2022 09:04pm
بہترین

کارٹون

کارٹون : 7 اکتوبر 2024
کارٹون : 6 اکتوبر 2024