سندھ : بارشوں اور سیلاب سے 16 لاکھ 70 ہزار افراد بے گھر ہوئے، پی ڈی ایم اے
صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے صوبے کے زیریں اور بالائی علاقوں میں 16 لاکھ 70 ہزار لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق 20 جون سے 25 اگست تک کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا، جس کے مطابق مجموعی طور پر 49 لاکھ لوگ اور 6 لاکھ 48 ہزار 621 خاندان متاثر ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سندھ میں بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں 339 افراد جاں بحق ہوئے ہیں، جاں بحق ہونے والوں میں 117 آدمی، 46 خواتین اور 108 بچے شامل ہیں جبکہ 974 لوگ زخمی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دریائے کابل میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب، نوشہرہ کے عوام سے انخلا کی اپیل
صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اب تک 98 ہزار 260 مویشی ہلاک ہوئے، ایک لاکھ 91 ہزار 30 مکانات مکمل طور پر تباہ اور 3 لاکھ 95 ہزار 80 مکانات کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ ان بارشوں اور سیلاب نے فصلوں کی کاشت کے لیے 2.72 ملین ایکڑ رقبے کو ناقابل استعمال بنا دیا ہے۔
پی ڈی ایم نے بتایا کہ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ کو 3 ہزار 880 راشن کے تھیلے، 3 ہزار 600 مچھر دانیاں، 49 ہزار پلاسٹک کی ترپالیں، 4 ہزار 835 خیمے اور پانی نکالنے والے 95 پمپس فراہم کیے ہیں۔
دوسری جانب، رہائشیوں کے لیے بارشوں کے بعد کی صورت حال اب بھی نازک ہے کیونکہ پانی کی نکاسی کا کام سست روی کا شکار ہے۔
بارشوں سے شدید متاثرہ علاقے لطیف آباد نمبر 12 کے رہائشی جاوید ملک نے بتایا کہ قاسم آباد کے علاقوں، لطیف آباد نمبر 2، 8، 11 اور 12 بارش کے پانی کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، پانی نکالنے میں تاخیر ہو رہی ہے کیونکہ یہ نظام ضروری مقدار میں بارش کے پانی کی نکاسی نہیں کر رہا۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں بارشوں کے بعد بدترین سیلاب، کئی اضلاع میں ایمرجنسی نافذ
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بے گھر افراد میں زیادہ تر کسان شامل ہیں، ان کے کچے مکانات یا پورے گاؤں میں سیلاب آنے کے بعد وہ لوگ کھیت چھوڑ کر سڑک کنارے منتقل ہو گئے تھے۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ بے گھر ہونے والے زیادہ تر افراد کو عارضی خیمے مل گئے ہیں، جو انہیں حکومت یا پھر غیر منافع بخش ادارے (این جی اوز) نے فراہم کیے ہیں۔
میر پور خاص کی تحصیل جھڈو کے رہائشی رامو نے بتایا کہ ہمیں خوراک ملنے کا دراومدار صاحب ثروت لوگوں کی طرف سے دی جانے والی خیرات پر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ میرپور خاص کے دیگر علاقے بھی متاثر ہیں کیونکہ لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی)یعنی نکاسی آب کے سیم نالے کے ذریعے پانی کی نکاسی آہستہ ہو رہی ہے، جس سے 10 ہزار کیوسک کا اخراج ہوا تھا جبکہ اسے 4 ہزار کیوسک کے اخراج کے لیے ڈیزائن کیا گیا۔
ایل بی او ڈی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر فرید میمن کا کہنا تھا کہ میرے لیے پانی معجزانہ طور پر بہہ رہا ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ ایل بی او ڈی کے مرکزی نالے میں کوئی شگاف نہیں پڑے گا، جو دوسری صورت میں تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سسٹم کے ذیلی نالوں میں متعد شگاف پڑے تھے لیکن خوش قسمتی سے مین ڈرین ابھی تک محفوظ ہے حالانکہ 2020 کی بارشوں میں چند جگہوں پر شگاف پڑے تھے۔
ایل بی او ڈی بارش کے پانی کو بحیرہ عرب تک لے جاتا ہے، اسے ضلع بدین میں آرڈی-159 پر کڈھن پتیجی آؤٹ فال ڈرین (کے پی او ڈی) اور دھورو پورن آؤٹ فال ڈرین (ڈی پی او) میں تقسیم کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: مدد کے منتظر افراد کے سیلاب میں ڈوبنے کی ویڈیو نے دل دہلا دیے
بدین کے لوگ ایل بی او ڈی کو ایک ایسا بھوت سمجھتے ہیں جس نے اپنے ناقص ڈیزائن کی وجہ سے ہر مون سون یا قدرتی آفت میں اپنے ضلع کے لیے ہمیشہ تباہی مچائی ہے۔
مقامی صحافی راشد لغاری نے گزشتہ ہفتے ایل بی او ڈی کے حوالے سے پریس بریفنگ میں وزیراعلیٰ سے کہا تھا کہ یہ ایک عفریت ہے اور حکومت کو ایل بی او ڈی میں مزید سرمایہ کاری نہیں کرنی چاہیے، حکومت اسے بند کرے یا پھر چھوڑ دے۔
فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن (ایف ایف ڈی) کی جانب سے آج جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ میں سکھر بیراج کے مقام پر اونچے اور گڈو بیراج کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔
ایف ایف ڈی کی رپورٹ کے مطابق تربیلا ڈیم جلد بھر جائے گا، محکمہ آبپاشی سندھ کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، 27 اگست کو دوپہر کے وقت اس میں پانی کی سطح 1549.5 فٹ تھی۔
سانگھڑ میں موسلا دھار بارشوں سے تباہی
حالیہ مون سون بارشوں نے پورے سانگھڑ ضلع میں تباہی مچائی ہے۔
غیر معمولی بارشوں نے ضلع کی تمام چھ تعلقہ کھپرو، سانگھڑ، جام نواز علی، سنجھورو، شہداد پور اور ٹنڈو آدم میں زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مسلسل طوفانی بارشوں، تباہ کن سیلاب کے پیش نظر پاکستان کا قومی ایمرجنسی کا اعلان
یہاں پر انسانی آبادی اور مویشیوں دونوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی دیکھی گئی، لوگ کھلے آسمان تلے اونچے علاقوں اور سرکاری اسکولوں، کالجوں اور قریبی شہروں میں جانے پر مجبور ہیں۔
کسانوں کا روزگار ختم ہو گیا ہے کیونکہ ان کی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔
خیراتی ادارے اور کچھ انفرادی لوگوں نے خوراک فراہم کرنے کا آغاز کیا ہے جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے رجسٹرڈ لوگوں میں 25 ہزار روپے کی امدادی رقم بھی تقسیم کی گئی۔
سانگھڑ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جاری ڈیٹا کے مطابق جمعہ تک 52 ہزار 498 گھروں کو نقصانات پہنچا جبکہ 5 لاکھ 98 ہزار 380 لوگ بارشوں سے متاثر ہوئے۔