کراچی: ڈینگی کے کیسز میں اضافہ، ہسپتال مریضوں سے بھر گئے
گزشتہ 2 ماہ کے دوران ہونے والی موسلادھار بارشوں کے بعد کراچی میں نکاسی آب اور صفائی ستھرائی کی خراب صورتحال کے باعث شہر میں حالیہ ہفتوں میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینئر طبی ماہرین نے کہا ہے کہ ان دنوں ڈینگی کے مریضوں کی بڑی تعداد ڈاکٹروں سے رجوع کر رہی ہے۔
انہوں نے تجویز کیا ہے کہ جن لوگوں کو تیز بخار کے ساتھ گلے میں سوجن کی شکایت ہے یا اس طرح کی علامات ظاہر ہورہی ہیں وہ بھی مچھروں سے پھیلنے والی بیماری کی تشخیص کے لیے 24 گھنٹوں کے اندر اپنے ٹیسٹ کروا لیں۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں ‘پراسرار وائرس’ سے متعلق خبریں مسترد، ڈینگی کی نئی قسم کا تجزیہ شروع
انہوں نے متنبہ کیا کہ کسی بھی ان کوالیفائڈ ڈاکٹر کی جانب سے مریض کے علاج میں کوتاہی، اینٹی بائیوٹکس، اسٹیرائیڈز اور از خود اپنے طور پر کسی بھی قسم کی عام ادویات کا استعمال یا کسی ایسی دوائی کا استعمال جو پلیٹلیٹس کی سطح کو کم کرتی ہیں، بیماری کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے جس سے مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
تاہم انہوں نے صورتحال کو خطرناک قرار نہیں دیا جب کہ زیادہ تر مریض گھر پر ہی کچھ روز علاج کرانے کے بعد صحت یاب ہو رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق سندھ میں اس وقت ڈینگی کے سب سے زیادہ مریض یعنی 45 مریض سندھ انفیکشن ڈیزیز ہوسپٹل اینڈ ریسرچ سینٹر میں زیر علاج ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ 45 بچے بھی اس مرکز صحت میں ڈینگی، نمونیا اور ڈائریا سمیت دیگر امراض کے باعث زیر علاج ہیں۔
ہسپتال میں کام کرنے والے ایک سینئر ڈاکٹر نے بتایا کہ جس بڑے مسئلے کا اس وقت ہم سامنا کر رہے ہیں وہ جگہ کی کمی ہے،تینوں مننزلوں پر موجود ہمارے تمام اہم وارڈز 95 فیصد بھر چکے ہیں، تاہم ہسپتال میں مریضوں کی خون کی ضروریات کو پورا کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: کراچی میں ‘ڈینگی’ کی طرز کا ‘پراسرار وائرس’ پھیلنے کا انکشاف
محکمہ صحت نے ستمبر کے ابتدائی 5 روز کے دوران ڈینگی کے 347 کیسز ریکارڈ کیے ہیں، جن میں سے سب سے زیادہ 113 کیسز کراچی شرقی میںرپورٹ ہوئے، اگست کے دوران شہر بھر میں مجموعی طور پر کل ایک ہزار 265 کیسز ریکارڈ کیے گئے تھے۔
‘خطرناک صورتحال نہیں’
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ماہرین نے بتایا کہ گزشتہ 3 ماہ کے دوران یونیورسٹی کی سینٹرل لیبارٹری میں ڈینگی کیسز کی تعداد میں بتدریج اضافہ دیکھا گیا۔
ڈاؤ یونیورسٹی میں سندھ پبلک ہیلتھ لیب کے سربراہ مالیکیولر پیتھالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر سعید خان نے کہا کہ اگست کے وسط تک، شہر بھر کی ہماری لیبز سے موصول ہونے والےایک ہزار 300 سیمپلز میں سے ڈینگی کے 20 فیصد کیسز سامنے آئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بعد ازاں ایک ہزار 563 مشتبہ نمونے میں سے 30 فیصد میں ڈینگی کی تشخیص ہوئی، اگست کے آخر تک ہمیں 3 ہزار 274 سیمپلز موصول ہوئے جن میں سے 40 فیصد میں ڈینگی کے کیسز کی تصدیق ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: دس علاقوں سے ڈینگی کے 85 فیصد کیسز
ان کے مطابق جو مریض پہلے ڈینگی کا شکار ہو چکے ہیں ان میں دوسرے سیرو ٹائپ سے انفیکشن کی صورت میں بیماری کی شدت کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے، وائرس کے 4 علیحدہ علیحدہ لیکن ایک دوسرے متعلقہ، سیرو ٹائپس ہیں جو ڈینگی کا سبب بنتے ہیں۔
یہ سمجھا جاتا ہے کہ انفیکشن سے صحت یاب ہونے کے بعد اس سیرو ٹائپ کے خلاف تاحیات امیونٹی حاصل ہوجاتی ہے، ہمارے ملک میں سیروٹائپ-2 زیادہ عام ہے، ڈینگی کے پہلے حملے میں تیار ہونے والی اینٹی باڈیز دوسرے سیرو ٹائپ سے ہونے والے انفیکشن کے خلاف لڑنے میں سہولت فراہم کرتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر سعید خان نے کہا کہ کیسز میں اضافہ تقریباً ہر سال ڈینگی کے سیزن کے پیٹرن کے مطابق ہے، انہوں نے معاشرے میں پائی جانے والی اس بڑی غلط فہمی کو بھی مسترد کردیا کہ ڈینگی مچھر صاف پانی میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کے حملے صبح اور شام کے اوقات میں زیادہ ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ڈینگی کے خاتمے کیلئے مچھر مار بل بورڈز
میڈیسن پروفیسر اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے ڈین ڈاکٹر سید مسرور احمد نے کہا کہ شہر میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے اور اسی طرح ملیریا سمیت دیگر بیماریوں کے کیسز بھی بڑھ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شہر کے صفائی ستھرائی کی صورتحال اور حفظان صحت کے اصونوں کو نظر انداز کیے جانے کے پیش نظر کیسز میں اضافہ حیران کن ہے اور نہ ہی تشویشناک ہے جب کہ ڈینگی کے زیادہ تر مریض بغیر کسی پیچیدگی کے گھر پر ہی صحت یاب ہو رہے ہیں۔