البانیا پر سائبر حملے کے بعد امریکا کی ایران پر نئی پابندیاں عائد
امریکا نے ایران کی وزارت انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اور اس کے وزیر کو البانیا پر جولائی میں ہونے والے سائبر حملے سے منسلک ہونے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف دیگر سائبر سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام اس واقعے کے ردعمل میں البانیا کی جانب سے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے بعد اٹھایا گیا ہے جس کے تحت ایرانی سفارت کاروں اور سفارت خانے کے عملے کو 24 گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔
امریکی محکمہ خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ ایرانی وزارت انٹیلی جنس اور سیکیورٹی سائبر حملوں کے متعدد نیٹ ورکس کو ہدایات جاری کرتی ہے جن میں ایرانی حکومت کی حمایت میں سائبر جاسوسی اور رینسم ویئر حملوں میں ملوث افراد بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران نے امریکا پر جوہری معاہدے کی بحالی میں تاخیر کا الزام لگایا دیا
امریکی محکمہ خزانہ کے انڈر سیکریٹری برائے دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس برائن نیلسن نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم ایران کی بڑھتی ہوئی جارحانہ سائبر سرگرمیوں کو برداشت نہیں کریں گے‘۔
ایران کی وزارت انٹیلی جنس اور سیکیورٹی پر پہلے ہی امریکی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں، تازہ پابندیوں کے حوالے سے تبصرے کے لیے اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے فوری درخواست کا جواب نہیں دیا۔
مائیکروسافٹ (جس کی سائبر سیکیورٹی ریسرچ ٹیم نے واقعے کی تحقیقات میں مدد کی) کی جانب سے ایک بلاگ پوسٹ میں کہا گیا کہ ایرانی سائبر آپریشن میں ڈیجیٹل جاسوسی کی تکنیکوں، ڈیٹا کو مٹانے والے میلویئر اور آن لائن معلومات کے آپریشنز شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کی بحالی میں پیشرفت
محققین کے مطابق ہیکرز کا مقصد البانی حکومت کے عہدیداروں کو شرمندہ کرنا تھا۔
جولائی میں ہونے والے سائبر حملوں نے سرکاری ویب سائٹس اور دیگر عوامی سروسز کو عارضی طور پر متاثر کیا، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس آپریشن کا مقصد البانیا کو ان کے ملک میں مقیم ایرانی مخالف گروپ ’مجاہدینِ خلق‘ کی حمایت کرنے پر سزا دینا تھا۔
سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے ایک بیان میں مزید کہا کہ ایران نے سائبر اسپیس میں امن کے ذمہ دار ریاستی رویے کے اصولوں کو نظر انداز کیا۔