• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

توہین عدالت کیس میں جو بھی فیصلہ ہو قبول کروں گا، عمران خان

شائع September 10, 2022 اپ ڈیٹ September 11, 2022
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ توہین عدالت کیس میں جو بھی فیصلہ کریں گے میں قبول کروں گا۔

عمران خان نے گجرانوالا میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری سے متعلق بیان پر زیر سماعت توہین عدالت کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں اس لیے نہیں کہہ رہا کہ میرا کیس اس عدالت میں ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں بڑے زبردست فیصلے کیے ہیں، کئی بار ان کی تعریف کی ہے، جو بھی فیصلہ کریں گے میں قبول کروں گا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ انہوں نے بات کرنے کی اجازت نہیں دی، اگر مجھے بولنے دیتے تو بتا دیتا کہ کس ماحول میں بات کی ہے، بہر حال کیس ابھی چلے گا۔

‘جو بھی پیسہ دے گا، ایسی چیز مانگے گا جس سے قومی سلامتی متاثر ہوگی’

ان کا کہنا تھا کہ آخر میں ان لوگوں سے بات کرنا چاہتا ہوں جن کے پاس طاقت ہے، اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح ہمارا ملک یہ امپورٹڈ حکومت تیزی سے نیچے لے کر جارہی ہے، آپ کہتے ہیں کہ آپ نیوٹرل ہیں، قوم آپ کو ذمہ دار ٹھہرائے گی کہ آپ اس ملک کو دلدل میں پھنسنے سے روک سکتے تھے، اور آپ نے کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ جیسے معیشت نیچے جارہی ہے، ہم بیرونی طاقت کے آگے اور مجبور ہوتے جارہے ہیں، جو بھی پیسہ دے گا وہ ہم سے وہ چیز مانگے گا جس سے ہماری نیشنل سیکیورٹی متاثر ہوگی، اب بھی وقت ہے ملک کو نیچے جانے سے بچائیں۔

یہ بھی پڑھیں: امپورٹڈ حکومت، ہینڈلرز ‘مائنس ون’ فارمولے پر کام کر رہے ہیں، عمران خان

پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جاگی ہوئی اور شعور والی قوم جس میں بیداری آ جاتی ہے وہی قوم اپنی حقیقی آزادی کو چھینتی ہے اور اسی قوم کی پرواز اونچی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چار چیزیں ہیں جو قوم کو حقیقی طور پر آزاد کرتی ہیں، کبھی بھی قوم کی پرواز اونچی نہیں جاسکتی جب تک وہ غلامی کی زنجیریں نہیں توڑتی، سب سے پہلے لا الہ الا اللہ انسان کو آزاد کرتا ہے، جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ تیرے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکیں گے یہ سب سے پہلا دعویٰ ہے آزادی کا، دوسری غلامی یہ ہے کہ دوسرا ملک آپ کو فتح کیے بغیر غلام بنا دیتا ہے۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے ملک میں اپنے لوگوں پر پیسہ خرچ کرنا تھا، ہمیں تعلیمی نظام ٹھیک کرنا تھا، ملک میں ایسا انصاف کا نظام پیدا کرنا تھا تاکہ سرمایہ کاری ہو، نوکریاں ملیں اور خوش حالی آئے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری غلامی غربت کی ہے، تھوڑے سے لوگوں کے لیے انگریزی میڈیم میں تعلیم اور باقی عوام کے لیے اردو میڈیم، اور وہ پڑھ کر بھی بے روزگار رہتے ہیں، پہلی بار ہم نے ایک نصاب بنانے کی کوشش کی تھی کہ سب کے لیے یکساں مواقع ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ تیسری چیز ذہنی آزادی اور اندرونی آزادی ہے، کبھی کوئی انسان بڑا انسان نہیں بن سکتا جب تک وہ آزاد نہیں ہوتا، لالچ اور ہوس کا بت بھی بہت بڑا ہے، انسان پیسہ بناتے بناتے تباہ ہو جاتا ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ جب تک معاشرے میں انصاف نہیں آتا اور قانون کی بالادستی اور حکمرانی نہیں ہوتی، یعنی طاقت ور اور کمزور کے لیے ایک قانون نہیں ہوتا، کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا، اصل میں یہ جنگ انصاف کی ہے۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ: عمران خان کا نئے انتخابات کی تاریخ کے اعلان تک اسلام آباد کے ڈی چوک میں قیام کا عزم

انہوں نے کہا کہ جب سے یہ لوگ اقتدار میں آئے، ان کی کوشش تھی کہ یہ تحریک انصاف کو ختم کریں اور ہمیشہ کے لیے اوپر بیٹھ جائیں گے، پنجاب کے ضمنی انتخابات میں مسٹر ایکس کی مدد اور الیکشن کمیشن کی بددیانتی کے باوجود یہ لوگ ہار گئے، اب ان کی کوشش ہے کہ عمران خان کو کسی طرح نااہل کیا جائے۔

عمران خان نے کہا کہ مدینہ منورہ میں ان کے خلاف چور چور کے نعرے لگتے ہیں اور انہوں نے یہاں پر میرے اوپر توہین مذہب کا کیس کردیا۔

‘ملک کی حقیقی آزادی کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہوں’

ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے میرے اوپر دہشت گردی کی ایف آئی آر کاٹ دی، یہ مجھے پکڑ کر جیل میں ڈالنے آ رہے تھے، میں نے بیگ پیک کیا ہوا تھا اور جیل جانے کے لیے تیار بیٹھا تھا، جیل تو میرے لیے بہت چھوٹی چیز ہے، میں ان چوروں کے خلاف اپنے ملک کو حقیقی طور پر آزاد کرنے کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔

‘میرے چیف آف اسٹاف پر تشدد ہوا، کیا میں ردعمل نہ دیتا’

عمران خان کا کہنا تھا کہ میرے چیف آف اسٹاف شہباز گِل کو انہوں نے اغوا کیا اور دو دن تک تشدد کیا، اس کے بعد عدالت میں اسے پیش کیا گیا، اس نے وکیلوں کے ذریعے مجھے پیغام بھجوایا کہ انہوں نے میرے اوپر اتنا تشدد کیا ہے، وہ صرف ایک چیز چاہ رہے تھے کہ عمران خان کے خلاف بیان دو، اس نے کہا تھا کہ میں اور تشدد برداشت نہیں کرسکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس نے کہا تھا کہ مجھے ننگا کرکے تشدد کیا گیا اور اگر انہوں نے مجھے واپس ریمانڈ پر بھیج دیا تو میں ذہنی طور پر یہ برداشت نہیں کرسکتا، جب شہباز گل کو ریمانڈ پر بھیجا گیا تو اس پر میں نے کہا تھا کہ قانونی کارروائی کریں گے، اس کے اوپر مجھ پر دہشت گردی کا پرچہ کاٹ دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: مجھے پورا یقین تھا کہ یہ الیکشن سے بھاگیں گے، عمران خان

انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گرد اور قاتل نہیں تھا، یہ امریکی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے، میرے اوپر جو توہین عدالت کا مقدمہ ہے اس پر بات نہیں کروں گا کیونکہ وہ زیر سماعت ہے، میرے اوپر دہشت گردی کا جو پرچہ کیا ہے اس کا بتانا چاہتا تھا، شہباز گِل پیغام بھیج رہا ہے کہ کس طرح جنسی تشدد کیا، میرا چیف آف اسٹاف تھا کیا میں ردعمل نہ دیتا۔

‘کیا کوئی سمجھتا ہے کہ شہباز شریف ملک کو دلدل سے نکال سکتا ہے’

انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے سازش کرکے ان لوگوں کو ہمارے اوپر مسلط کیا، ان سب سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کو پاکستان کی فکر نہیں اور کیا آپ کو خوف نہیں آرہا کہ پاکستان کہاں جارہا ہے، کیا کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ شہباز شریف ملک کو اس دلدل سے نکال سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم مزید نیچے جارہے ہیں، جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا ملکی معیشت نیچے جائے گی۔

‘قوم تیار ہے، پرامن احتجاج کرکے زبردستی الیکشن کروائے گی’

عمران خان نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا ہے اور ساری ضلعی تنظیموں کو خط لکھا ہے کہ تیار ہو جاؤ اور انتظار کرو کہ جب کال دوں گا تو سب تیار رہنا ہے، میں کبھی بھی کال دے سکتا ہوں۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کو واپس لانے کیلئے پنجاب حکومت گرانے کی سازش ہو رہی ہے، عمران خان

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پوری قوم تیار ہے، اگر یہ صاف اور شفاف انتخابات نہیں کروائیں گے تو یہ قوم پاکستان کی سڑکوں پر آکر پرامن احتجاج کرکے زبردستی الیکشن کروائے گی کیونکہ یہ انتخابات سے بھاگ رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے دو روز قبل انتخابات ملتوی کردیے کیونکہ انہیں نظر آرہا تھا کہ جس طرح یہ پہلے ہارے ہیں اس سے بھی بری طرح ہاریں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024