رکن الیکشن کمیشن سندھ کی تعیناتی کے خلاف فواد چوہدری کی درخواست مسترد
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما فواد چوہدری کی جانب سے رکن الیکشن کمیشن سندھ نثار احمد درانی کی تعیناتی کو چیلنج کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسا کیس نہیں ہے جس میں یہ عدالت آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اپنے دائرۂ اختیار کو استعمال کرے۔
انہوں نے کہا کہ یہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے اور اگر ایسا ہوتا بھی تو ہائی کورٹ اس سے احتراز برتتی کیونکہ آئین میں الیکشن کمیشن کے رکن کو عہدے سے ہٹانے کا طریقہ کار پہلے ہی وضع کر رکھا ہے۔
سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے چند ماہ قبل قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن چونکہ استعفیٰ قبول نہیں کیا گیا اس لیے انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے علاوہ الیکشن کمیشن کے 4 ارکان میں سے ایک نثار احمد درانی کی تعیناتی کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ نثار درانی سندھ حکومت کے ماتحت لا کالج میں بطور پرنسپل فرائض سرانجام دے رہے ہیں اس لیے وہ رکن الیکشن کمیشن رہنے کے اہل نہیں لہٰذا عدالت ان کی تعیناتی غیر آئینی قرار دے۔
یہ بھی پڑھیں: فواد چوہدری کا عدلیہ کو اپنی ساکھ بہتر بنانے کا مشورہ
الیکشن کمیشن کے دیگر 3 ارکان میں شاہ محمد جتوئی، بابر حسن بھروانہ اور ریٹائرڈ جسٹس اکرام اللہ خان شامل ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے 3 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں وضاحت کی گئی کہ یہ تسلیم شدہ مؤقف ہے کہ نثار احمد درانی کو آئین کے آرٹیکل 213 (2 بی) کے تحت پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کے مطابق کمیشن کا رکن مقرر کیا گیا۔
آرڈر میں کہا گیا کہ آئین کا آرٹیکل 215(2) واضح طور پر بتاتا ہے کہ کس طرح الیکشن کمیشنز کو ہٹایا جا سکتا ہے۔
آرٹیکل 215 الیکشن کمشنر اور ارکان کے عہدے کی مدت سے متعلق ہے جو 5 سال کی مدت کے لیے عہدے پر فائز ہوں گے۔
مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست نہیں، چیلنج کریں گے، فواد چوہدری
آرٹیکل 215 کا ذیلی سیکشن 2 کہتا ہے کہ الیکشن کمشنر یا رکن کو آرٹیکل 209 (سپریم جوڈیشل کونسل) میں بتائے گئے طریقے کے سوا کسی اور طریقے سے عہدے سے نہیں ہٹایا جائے گا۔
عدالت نے درخواست گزار کی نمائندگی کرنے والے ابو زر سلمان خان نیازی کو ہدایت دی کہ وہ درخواست کو برقرار رکھنے کے حوالے سے عدالت کو مطمئن کریں۔
ابو زر سلمان خان نیازی نے دلیل دی کہ آرٹیکل 215(2) اسی صورت قابل عمل ہوتا ہے جب ایک الیکشن کمشنر پر بدانتظامی کا الزام عائد کیا گیا ہو۔
سماعت کے دوران عدالت نے آئین کے آرٹیکل 215(2) کا بھی جائزہ لیا اور مشاہدہ کیا کہ اگر وکیل کی جانب سے پیش کیے گئے دلائل کو قبول کر لیا جائے تو عدالت کو آئین کے مذکورہ آرٹیکل کی کچھ اور تشریح کرنا ہوگی جو اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
’الیکشن کمشنر کو آئینی تحفظ حاصل‘
عدالتی حکم میں وضاحت کی گئی کہ آرٹیکل 215(2) الیکشن کمشنر کو آئینی تحفظ فراہم کرتا ہے جسے ہائی کورٹ اپنا آئینی دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے نظرانداز نہیں کرسکتی۔
مزید یہ کہ آرٹیکل 199 کے تحت عدالت کو حاصل اختیارات کو واضح طور پر آئین کے تابع کر دیا گیا ہے، اگر عدالت اس حوالے سے مطمئن ہو کہ قانون میں کوئی اور مناسب حل فراہم کیا گیا ہے تو وہ اپنا دائرہ اختیار استعمال کرنے سے انکار کر سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے فواد چوہدری اور اعظم سواتی کو نوٹسز جاری کردیے
فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اور عدالت کو آرٹیکل 199 کے تحت اختیارات استعمال کرنے میں خصوصاً ایسی صورت میں احتراز برتنا چاہیے جب الیکشن کمشنر کو ہٹانے کا طریقہ آرٹیکل 215(2) کے تحت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم میں الیاس بیگم کیس میں سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’یہ ایک طے شدہ قانون ہے کہ جو براہ راست نہیں کیا جا سکتا وہ بالواسطہ طور پر بھی نہیں کیا جا سکتا‘، لہٰذا یہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔