نومسلم خاتون کی عدت مکمل کیے بغیر شادی باطل نہیں، عدالت
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو پر مشتمل سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد سرکٹ کے ایک رکنی بنچ نے فیصلہ دیا ہے کہ اسلام قبول کرنے والی ہندو خاتون نگینہ کی مسلمان مرد مظہر حسین سے عدت کے دوران شادی باطل نہیں فاسد ہے اور اگر وہ چاہے تو اس کے ساتھ نئے سرے سے نکاح کر لے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بینچ نے 2 ستمبر کو اس معاملے کی سماعت کی تھی اور جمعہ کو 14 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنایا جس کے تحت عدالت نے خاتون کے سابق شوہر لالو کی جانب سے اپنی بیوی اور 4 بچوں کی تحویل کے لیے دائر درخواست کو نمٹا دیا۔
فیصلے کے مطابق لالو نے 17 مارچ کو عدالت کے سامنے ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں مظہر حسین اور اس کے والد محمد بخش خان کی تحویل سے اپنی (مبینہ طور پر اغوا) بیوی اور بچوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
جب حراست میں لیے گئے افراد کو عدالت میں پیش کیا گیا تو محمد بخش نے بتایا کہ اس کے بیٹے مظہر حسین نے نگینہ سے اسلام قبول کرنے کے بعد شادی کی تھی جس نے اپنا نیا نام مرک رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نومسلم لڑکی نے عدالت میں تحفظ کی درخوست دائر کردی
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ سماعت کے دوران ان کی خاموشی کے باعث یہ سمجھا گیا کہ وہ کسی دباؤ میں ہیں جس کے بعد انہیں دارالامان بھیج دیا گیا اور نابالغ بچوں کو ان کے والد کے حوالے کر دیا گیا۔
لیکن جب وہ سماعت کی اگلی تاریخوں پر پیش ہوئیں تو انہوں نے اغوا کے الزام کی تردید کی اور انکشاف کیا کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور اپنی مرضی سے مظہر حسین سے شادی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ درخواست گزار سے خوش نہیں تھیں اس لیے انہوں نے اسے چھوڑ دیا تھا اور وہ واپس جانے کو تیار نہیں ہیں۔
عدالت نے اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے متعلقہ فیصلے پر تفصیلی بحث کی۔
عدالت کے سامنے پیش کیے گئے حقائق کے مطابق نگینہ نے 15 جنوری کو لالو کو چھوڑ دیا تھا اور اس نے اسلام قبول کرکے 17 جنوری کو مظہر حسین سے شادی کی، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ گھر چھوڑنے سے پہلے انہوں نے لالو کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کے ارادے سے آگاہ کیا تھا اور انہیں پیشکش کی تھی کہ اگر وہ ان کے شوہر رہنا چاہیں تو انہیں اس کی اجازت دیں اور شوہر کے انکار پر ہی انہوں نے اسے چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
مزید پڑھیں: بھارتی لڑکے کی پاکستانی لڑکی سے شادی
عدالت میں سوال کیے جانے پر وہ اپنے حلف نامے کو قبول اسلام کا ثبوت سمجھنے کے سوا اس کے دیگر مندرجات سے ناواقف نظر آئیں۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ مرک پہلے ہندو تھیں لیکن وہ اب مسلمان ہیں، درخواست گزار سے ان کے 4 بچے ہیں، تبدیلی مذہب سے پہلے انہوں نے اپنے شوہر لالو کو اپنے ارادے سے آگاہ نہیں کیا اور مظہر حسین سے شادی کرنے سے پہلے عدت مکمل نہیں کی۔
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے کہا کہ یہ بالکل اسی کیس جیسا ہے جس کا لاہور ہائی کورٹ حتمی فیصلہ دے چکی ہے، تاہم شادی ختم ہونے کی تصدیق حاصل کرنے کے لیے یہ طے کیا گیا کہ عورت اس فیملی کورٹ میں اپنی تبدیلی مذہب کی بنیاد پر شادی ختم کرنے کی درخواست دے سکتی ہے جہاں وہ مقیم ہے۔
فیصلے کے مطابق عدالت خاتون کے شوہر کو طلب کرے اور اسے بتائے کہ اس کی بیوی نے اسلام قبول کر لیا ہے اور اسے بھی ایسا کرنے کی پیشکش کی جائے اور اگر وہ دوران عدت یہ پیشکش قبول نہ کرے تو عدالت یہ رشتہ ختم کر دے گی، بعدازاں وہ عورت کسی مسلمان کے ساتھ دوسری شادی کرنے کی حقدار ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: گھوٹکی کی دو نومسلم بہنوں کو اپنے خاوندوں کے ساتھ جانے کی اجازت مل گئی
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ یہ طریقہ کار اپنی خاندانی ذمہ داریوں کی پرواہ کیے بغیر محض جنسی خواہش کی تسکین کے لیے مذہب کے استحصال کے امکان کو روکنے کے لیے اپنایا جانا چاہیے۔
عدالت میں مرک نے واضح الفاظ میں ان حقائق کی تصدیق کی اور اس بات کا اعادہ کیا کہ مظہر کے ساتھ ان کی شادی ان کی رضامندی اور پسند سے ہوئی تھی، ان کا اپنی مرضی سے مسلمان ہونا واضح ہے لہٰذا یہ مذہبی نقطہ نظر سے ایک اٹل حقیقت ہے۔
عدالت نے کہا کہ خاتون کی دوسری شادی میں صرف ان بے ضابطگیوں کو اجاگر کیا جا سکتا ہے کہ اس نے تبدیلی مذہب کے بعد عدت مکمل کرنے اور درخواست گزار کو اسلام قبول کرنے کی پیشکش کے بغیر ایسا کیا، خاتون کی جانب سے اپنے شوہر کو قبول اسلام کی پیشکش خاتون کی عدت مکمل ہونے کے بغیر دوسری شادی کرنے کے بعد غیر ضروری ہو گئی۔
عدالت کی جانب سے مزید کہا گیا کہ لیکن یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اس طرح کی شادی کو باطل نہیں بلکہ فاسد سمجھا جاتا تھا، ایک ایسی شادی جس میں عارضی رکاوٹیں یا ممنوعات شامل ہوں اور اس طرح کی ممانعتوں کو ختم کرکے درست کیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: پمز کی رپورٹ میں نومسلم لڑکیوں کے بالغ ہونے کی تصدیق
فیصلے میں کہا گیا کہ 'لہٰذا اس کے باوجود 2018 کے ایکٹ کے تحت اس اس بے قاعدگی کو مرک کا مظہر کے ساتھ ایک نیا نکاح کر کے سدھارا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی عدت پہلے ہی ختم ہو چکی ہے'۔
فیصلے میں جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے لکھا کہ فیصلے کی نقول عدالت کے رجسٹرار کے ذریعے صوبے کے تمام سیشنز اور ڈسٹرکٹ ججوں سمیت ان کے ماتحت کام کرنے والے تمام سول/فیملی ججوں کو بھی بھیجی جائیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ رجسٹرار اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ اس فیصلے کی ایک کاپی سیکریٹری سندھ اسمبلی کو بھی بھیجی جائے تاکہ اسے صوبائی کابینہ کے سامنے غور کے لیے رکھا جائے اور اس حوالے سے ضروری قانون سازی/ترامیم کی جاسکیں۔