• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

عمران خان کو الزامات کا جواب دینا ہوگا، صحافیوں کا ردعمل

شائع October 27, 2022
صحافی ابصا کومل کا کہنا تھا کہ عمران خان پریس کانفرنس اس لیے نہیں کر رہے کیونکہ انہیں الزام لگانے کا شوق ہے— فائل فوٹو: رائٹرز
صحافی ابصا کومل کا کہنا تھا کہ عمران خان پریس کانفرنس اس لیے نہیں کر رہے کیونکہ انہیں الزام لگانے کا شوق ہے— فائل فوٹو: رائٹرز

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کی ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے ہمراہ پریس کانفرنس کے بعد متعدد صحافیوں کی جانب سے کہا گیا کہ چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کو پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے اوپر لگے الزامات کا جواب دینا چاہیے، میڈیا کے پاس عمران خان کے لیے بہت سوالات ہیں۔

پاکستان کی صحافی برادری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی مشترکہ پریس کانفرنس پر ردعمل دیا۔

یہ بھی پڑھیں: اگر آپ کا سپہ سالار میر جعفر ہے تو ان سے بند دروازے میں کیوں ملتے رہے؟ ڈی جی آئی ایس آئی

معروف صحافی اور اینکرپرسن کامران خان نے کہا کہ ’ابھی افواج پاکستان کے ترجمان اعلیٰ اور ہمارے قومی تحفظ کے اہم ترین ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ نے غیر معمولی بیلاگ انداز میں معلومات سے قوم کو اعتماد لیا، من حیث القوم ہمیں ان پر مکمل اعتماد کرنا چاہیے‘۔

کامران خان کا کہنا تھا کہ ’ آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی اس بات سے 100 فیصد متفق ہوں کہ ارشد شریف کی شہادت سے متعلق ہمیں مفروضوں، تصوراتی گیم پلانز وغیرہ سے اجتناب برتنا چاہیے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ’حساس معاملہ ہے، نہ جانے ہمارے کس دشمن کا اس میں ہاتھ ہو، دیکھتے ہیں کینیا کی پولیس کی حتمی رپورٹ کیا کہتی ہے‘۔

معروف صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کا کہنا تھا کہ ’کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے، آئی ایس آئی کے سربراہ نے کسی کا نام نہیں لیا اور بتا بھی دیا کہ ان کا اشارہ کس کی طرف ہے‘۔

معروف کالم نگار اور صحافی انصار عباسی نے کہا کہ ’عمران خان نے اپنی سیاست اور الزام تراشی کے لیے پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کو اس قدر دیوار سے لگا دیا کہ آج ہم ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس ملک کی تاریخ میں پہلی دفع دیکھ رہے ہیں۔‘

معروف صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ’صرف غلطیوں کو تسلیم کرنا کافی نہیں اُن غلطیوں کے تدارک کے لیے ادارے کو مکمل غیر سیاسی ثابت بھی کرنا ہوگا ۔ یہی اصل امتحان ہے اور ہوگا‘۔

صحافی احمد نورانی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے تصدیق کردی ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ رات کی تاریکی میں سیاستدانوں سے ملتے ہیں۔ یہ تو بڑی غلط بات ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی اور اس کی قیادت پر الزامات لگے ہیں، پی ٹی آئی کا عام کارکن زخمی محسوس کر رہا ہے۔ عمران خان کو سامنے آکر ان الزامات کا جواب دینا ہوگا۔‘

یہ بھی پڑھیں: لانگ مارچ میں شرکا کی تعداد بڑھانے کیلئے عمران خان لاہور میں متحرک

صحافی اعزاز سید نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہہ دیا کہ مارچ میں قمر جاوید باجوہ کو عہدے میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی پیشکش کی گئی تھی۔

صحافی ابصا کومل نے کہا کہ ’عمران خان پریس کانفرنس اس لیے نہیں کر رہے کیونکہ انہیں الزام لگانے کا شوق ہے، الزامات کا جواب دینے کا نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’عمران خان خان پریس کانفرنس کریں اور پارٹی کے وفاداروں کے علاوہ آزاد صحافیوں کو بھی مدعو کیا جائے، میڈیا کے پاس عمران خان کے لیے بہت سوالات ہیں۔‘

صحافی عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ جھوٹ کو اپنی سیاست کا اس حد تک اوڑنا بچھونا بنا لیا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو پریس کانفرنس میں آکر بتانا پڑا کہ اس بندے کی بات پر یقین کرنے سے پہلے تھوڑی سی تحقیق کر لیا کریں‘۔

صحافی مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پہلی بار ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی غیر معمولی پریس کانفرنس کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کے لیے مشکل دن آنے والے ہیں۔’

صحافی اور اینکرپرسن عادل شاہ زیب کا کہنا تھا کہ ’آج کی پریس کانفرنس کے بعد عمران خان کو اپنے خلاف لگے الزامات کو واضح کرنا چاہیے‘۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024