• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

اداروں کے سربراہ پریس کانفرنس کررہے ہیں، اور ساتھ کہہ رہے ہیں ہم سیاست میں نہیں، عمران خان

شائع October 27, 2022 اپ ڈیٹ October 28, 2022
— فوٹو: اسکرین شاٹ
— فوٹو: اسکرین شاٹ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کی غیرمتوقع ہنگامی پریس کانفرنس پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے مطابق پاکستانی فوج حکومت کا ادارہ ہے، حکومتی اداروں کے سربراہ آ کر پریس کانفرنس کررہے ہیں، اور ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ہم سیاست میں نہیں ہیں۔

92 نیوز کے پروگرام ’مقابل‘ میں اینکرعامر متین کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آئین کے مطابق پاکستانی فوج حکومت کا ادارہ ہے، اداروں کے سربراہ آ کر پریس کانفرنس کررہے ہیں، اور ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ہم سیاست میں نہیں ہیں، ایم آئی 6 کا سربراہ آ کر کب پریس کانفرنس کرتا ہے؟ میں نے کبھی یہ دیکھا ہی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یا تو ان کے متعلق کوئی چیز، مثلا کوئی سیکیورٹی کا مسئلہ ہو اس پر آ کر بات کریں، سیاسی پریس کانفرنس کررہے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آیا، کیا وزیر دفاع نہیں کر سکتا تھا؟ یا وزیر داخلہ یا پھر وزیراعظم کرتے، میرا پہلا اعتراض ہے کہ ان کا پریس کانفرنس کرنے کا کیا کام تھا؟

’ہمارا احتجاج پرُامن اور آئین و قانون کے اندر ہوگا‘

ان سے سوال پوچھا گیا کہ فیصل واڈا نے ڈرا دیا ہے کہ خونی مارچ ہوگا اور لاشیں گریں گی، اس پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں 26 سال سے سیاست کررہا ہوں، اور شاید ہی کسی نے اتنے احتجاج کیے ہوں جو ہم نے کیے ہیں، ہم نے 126 دن کا دھرنا دیا، ہماری تاریخ ہے کہ ہم پُرامن آئین اور قانون کے اندر رہ کر احتجاج کرتے ہیں، 25 مئی کو ہمیں اکسایا گیا، اگر میں آگے نکل جاتا اور دھرنا کرتا تو انتشار ہونا تھا میں نے صرف اس لیے احتجاج ختم کر دیا تھا، ہمارا احتجاج پُرامن ہوگا۔

ہمارا احتجاج پرُامن اور آئین و قانون کے اندر ہوگا، اسلام آباد میں ہم کوئی ایسی چیز نہیں کریں گے جس کی قانون اورعدالت نے اجازت نہیں دی ہوگی، ہم ریڈ زون میں نہیں جائیں گے۔

’فیصل واڈا نے جو کیا، اس پر بہت افسوس ہوا‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے زندگی میں بڑے لوگوں کو بدلتے دیکھا ہے، جن کو میں اپنے قریب سمجھتا تھا، جب امتحان آیا تو میں نے ان کی دوسری سائیڈ بھی دیکھی ہے، اس (فیصل واڈا) نے کل جو کیا مجھے اس پر بہت افسوس ہوا، میں اس کی توقع نہیں کررہا تھا، اور یہ ڈرٹی ہیری کی فرمائش پر کیا ہے، ڈرٹی ہیری صاحب جب سے اسلام آباد آئے ہیں، اس کے بعد جو ظلم اور تشدد ہونا شروع ہوا اور یہ فیصل واڈا کا بڑا قریب ہے، مجھے کوئی شک نہیں کہ اس کی فرمائش پراس نے یہ ڈرامہ کیا ہےکہ خون ہوگا اور پتا نہیں کیا ہوگا، جن جلسوں میں فیملیز آتی ہیں، وہ کیا خون کرنے جاتی ہیں۔

ان سے سوال پوچھا گیا کہ پاکستان میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ہمراہ طویل پریس کانفرنس کی ہے، اس سے لگتا ہے کہ ارشد شریف کو آپ نے ڈرایا اور بھگایا، اور شاید آپ ہی اس کی وفات کے ذمہ دار ہیں، اس پر عمران خان نے کہا کہ آئین کے مطابق پاکستانی فوج حکومت کا ادارہ ہے، اداروں کے سربراہ آ کر پریس کانفرنس کررہے ہیں، اور ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ہم سیاست میں نہیں ہیں، ایم آئی 6 کا سربراہ آ کر کب پریس کانفرنس کرتا ہے؟ میں نے کبھی یہ دیکھا ہی نہیں ہے، یا تو ان کے متعلق کوئی چیز کوئی، مثلا کوئی سیکیورٹی کا مسئلہ ہو اس پر آ کر بات کریں، اگر سیاسی پریس کانفرنس کررہے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آیا، وزیر دفاع نہیں کر سکتا تھا؟ یا وزیر داخلہ یا پھر وزیراعظم کرتے، میرا پہلا اعتراض ہے کہ ان کا پریس کانفرنس کرنے کا کیا کام تھا؟

’کوشش کی کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے فوج کو نقصان پہنچے‘

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ پریس کانفرنس میں انہوں نے کئی چیزیں کہیں، اور پی ٹی آئی کے لوگوں نے بڑا اچھا جواب دیا، میرا پوائنٹ صرف یہ ہے کہ اس میں ایسی چیزیں کہی گئیں کہ اگر میں جواب دینا شروع کر دوں تو میرے ملک کو نقصان پہنچنے گا، جب سے میں حکومت سے ہٹا ہوں، اتنی کوشش کی کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے فوج کو نقصان پہنچے، اور میں انٹرنیشنل حوالے سے بات کررہا ہوں کیونکہ مجھے پتا ہے کہ دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستانی فوج کمزور ہو، اور ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ کوئی ایسی چیز نہ کہوں کہ دنیا میں فوج کا امیج خراب ہو کیونکہ فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میرا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے کوشش کی ہے کہ اگر تنقید کروں تو تعمیری تنقید ہو، ان کا فائدہ ہو، جس طرح آپ بچوں پر تنقید کرتے ہیں کہ بچے بہتر ہوں ان کا فائدہ ہو، اب میں ڈرٹی ہیری پر تنقید کررہا ہوں، یہ ڈرٹی ہیری جب سے آیا ہے اس نے جو اعظم سواتی سے کیا ہے، پہلے شہباز گِل کو ننگا کرکے اس پر تشدد کیا، کون سی قیامت آ گئی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں یہی کہہ رہا ہوں کہ اگر میں اپنا منہ کھولنا شروع کروں تو نقصان تو میرے ملک کو ہی ہوگا، اس لیے بہت محتاط ہو کر بولتا ہوں، کئی دفعہ اشاروں سے بات کرتا ہوں، کبھی ایکس اور وائی کہہ دیتا ہوں اور اب ڈرٹی ہیری کہہ دیتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ یہ انفرادی لوگ غلطیاں کررہے ہیں، فوج کا ادارہ بچا رہا، پوری بات بتا دیں کہ بند کمروں میں اور بھی کیا باتیں ہوتی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی سفارت خانے میں لوگ جا کر مل رہے تھے، پھر خبریں آ رہی تھیں کہ نواز شریف سے جا کر لوگ مل رہے ہیں، مجھے پوری سازش کا تو پتا چل گیا تھا، میں نے جنرل باجوہ کو بتایا کہ اس وقت اگر یہ سازش کامیاب ہو گئی تو اس کا پاکستان کی معیشت پر ڈائریکٹ نقصان ہوگا، اور کوئی سنبھال نہیں سکے گا کیونکہ معیشت کا انحصار سیاسی استحکام پر ہے۔

’آرمی چیف کو کہا تھا اگر وہ آپ کو توسیع دے رہے ہیں تو میں دے دیتا ہوں‘

پی ٹی آئی کے چیئرمین سے سوال پوچھا گیا کہ انہوں نے سخت الزامات لگائے کہ ایک طرف تو آپ میر جعفر اور میر صادق کی باتیں کررہے ہیں اوردوسری طرف آپ ان کو غیر معینہ مدت تک توسیع کی آفر کررہے تھے۔

عمران خان نے جواب دیا کہ میں نے ان سے کہا کہ یہ سن رہا ہوں کہ توسیع کی بات ہو رہی ہے یا آرمی چیف کی بات ہو رہی ہے، اگر یہ آپ کو آفر کررہے ہیں تو ہم بھی آفر کر دیتے ہیں لیکن اس وقت حکومت کو نہیں ہٹانا ورنہ پاکستان نہیں سنبھلے گا اور بالکل وہی ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے کیا ڈیل کرنا تھی؟ مجھے کوئی کیا دے سکتا ہے؟ انہوں نے نہیں روکا، میں نہیں کہتا کہ یہ اس سازش کا حصہ تھے، اگر انکوائری ہو گی تو پتا چلے گا لیکن روک تو سکتے تھے، نہیں روکا تو ملک کے حالات دیکھیں، میں ڈگی میں ملنے نہیں گیا تھا، ہماری ملاقات ایوان صدر میں ہوئی تھی، ڈاکٹر عارف علوی بیچ میں تھے، اجلاس میں صرف ایک بات کہی تھی کہ اس ملک کو دلدل سے نکالنا ہے تو سوائے صاف اور شفاف انتخابات کے اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

رانا ثنا اللہ نے پریس کانفرنس میں آپ کو بھی ارشد شریف کے قتل میں شریک جرم کردیا ہے، اس پر جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ بدقسمتی دیکھیں کہ رانا ثنا اللہ اس ملک کا وزیر داخلہ ہے، عابد شیر علی کے والد کہتے ہیں کہ اس نے 18 قتل کیے ہوئے ہیں، سارا فیصل آباد جانتا ہے کہ یہ ہر جرم میں شریک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اور ان کے بیٹے کو سزا ہونے لگی تھی، 16 ارب روپے کے ایف آئی اے کے کیس تھا اور نیب میں 8 ارب روپے کا ٹی ٹی کا کیس تھا، ان کو سزا ہونے لگی تھی وہ وزیر اعظم بن گئے، وزیر اعظم بننے کے بعد 4 گواہ مر چکے ہیں اور ایف آئی اے کا ایک تفتیش کار مر چکا ہے، کسی نے تحقیقات نہیں کیں کہ ان سب کو دل کا دورہ کیسے پڑ گیا اور یہ بری ہوگئے۔

’شیریں مزاری کے پاس ارشد شریف کا میسیج ہے‘

سابق وزیراعظم نے کہا کہ شیریں مزاری کے پاس ارشد شریف کا میسیج ہے، اس میں کہہ رہا ہے کہ میری جان خطرے میں ہے، ان کی والدہ سے جا کر پوچھ لیں کہ اس کو کدھر سے خطرہ تھا، کیا اس کو عمران خان سے خطرہ تھا؟ میں نے اس کو مشورہ دیا کہ تم ملک سے باہر چلے جاؤ، وہ دلیر اتنا تھا کہ نہیں جانا چاہتا تھا۔

’لوگ ارشد شریف کی سچائی کو جانتے تھے‘

ارشد شریف سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ سب کو پتا ہے کہ ارشد شریف کا منہ کیوں بند کرانے کی کوشش کی گئی؟ اس کے پروگرام اٹھا کر دیکھ لیں، ارشد شریف سے کس کو خطرہ تھا، ان کی ٹوئٹس دیکھ لیں، یہ چھپی ہوئی بات تو نہیں ہے، ان کے جنازے پر بہت عوام تھے، شاید ضیا الحق کے زمانے میں مجھے کہتے ہیں کہ اتنا بڑا جنازہ تھا، لوگ ارشد شریف کی سچائی کو جانتے تھے، میں نے لوگوں میں اتنا زیادہ صدمہ نہیں دیکھا، گھروں میں خواتین افسردہ ہیں، ڈرٹی ہیری نے خوف پھیلایا ہوا ہے، سارے ڈرتے ہیں کہ میں کچھ بولوں گا تو کچھ ہو جائے گا۔

سائفر سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سائفر کو پہلے میں نے کابینہ میں رکھا، کابینہ میں اس کے منٹس تھے، پہلے تو یہ جھوٹ بولتے رہے کہ سائفر نہیں ہے، لوگوں سے جھوٹ نہ بولیں، کامرہ کے اندر پتا نہیں کیا ہوا تھا؟ میں نے سائفر کو نیشنل سیکیورٹی کونسل میں رکھا، اس میں فیصلہ ہوا کہ ہم امریکا کی مذمت کریں گے اور ڈی مارش کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے ہماری ایجنسیز کا رول بڑھ گیا تھا، وہ لوگوں کو اٹھا لیتے تھے، میرے دور میں دو کیس تھے، اسد طور کا مجھے پتا چلا کہ کیس کچھ اور تھا، وہ ایجنسز کا کیس نہیں تھا، مطیع اللہ کا کیس ایجنسیز کا تھا اور مجھے نہیں پتا، کوئی ادارہ قانون سے اوپر نہیں ہونا چاہیے، ہمارے مافیاز قانون سے اوپر ہیں، سیاست دان این آر او مانگتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ اگر پاکستان میں سیاسی جماعت نہ ہو تو پاکستان افراتفری کی طرف جائے گا اور کوئی فوج ملک کو کنٹرول نہیں کرسکے گی۔

’بات کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کیونکہ ہر چیز اُدھر پہنچ جاتی ہے‘

لانگ مارچ کا اچانک اعلان کرنے سے متعلق سوال پر سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہر چیز ٹیپ ہوتی ہے، ہمارے اجلاس کی ساری خبریں نکل جاتی ہیں، اس لیے میں نے کسی کو نہیں بتایا تھا کیونکہ ہماری ہر خبر پہنچ جاتی ہے، پتا نہیں ہمارے کتنے اور لوگوں کو یہ اپروچ کررہے ہیں، ڈرٹی ہیری نے جو کل گیم کھیلی ہے، ہم اب بات کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کیونکہ ہر چیز اُدھر پہنچ جاتی ہے اس لیے میں نے تاریخ خفیہ رکھی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کو سیاست دان نہیں جرائم پیشہ لوگ سمجھتا ہوں، مجھے پتا ہے کہ انہوں نے الیکشن نہیں کروانے، اسٹیلبشمنٹ کو بطور امپائر بیج میں ڈالا کیونکہ میں ان کو قبول نہیں کروں گا، انہوں نے 20 سے 25 کروڑ روپے لگا دیے ہمارے لوگوں کو خریدنے کے لیے، ہمارے لوگوں نے کہا کہ ہم بھی ریٹ لگا دیں، ہم ان کے لوگ خرید لیں، سوچا بھی کہ پیسے اکٹھے کریں، باہر سے دو تین لوگوں سے بات بھی ہوئی، ہم نے فیصلہ کیا کہ اگر ہم نے یہ نیلام گھر شروع کر دیا تو ہمارا نظریہ تباہ ہوتا تو ہم نے نہیں کیا۔

استعفوں سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ اسمبلی میں بیٹھنے کا مطلب ہوتا کہ آپ اس ساری سازش کو قبول کرچکے ہیں۔

’یہ لانگ مارچ مختلف ہوگا‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بدل چکا ہے، یہ لانگ مارچ پاکستان کے تمام لانگ مارچ سے مختلف ہوگا، ہمارا پلان ہے کہ جمعرات کی رات کو ہم راولپنڈی پہنچیں گے، اس کے بعد دیکھیں گے کہ اسلام آباد میں چاروں طرف سے عوام کا سمندر آئے گا، قانون نہیں توڑیں گے، قوم اپنا حق مانگے گی۔

’سرحدوں کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے‘

سوات میں کالعدم تنظیم طالبان کے خلاف نعرے لگے بعد ازاں سوات، لاہور اور ارشد شریف کے جنازے میں بھی اداروں کے خلاف نعرے لگے، آپ کی اس کی مذمت کرتے ہیں یا حمایت کرتے ہیں، اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ سوات کے لوگوں کا ردعمل بالکل ٹھیک آیا ہے، وہ دیکھ رہے ہیں کہ کالعدم تنظیم طالبان کے لوگ پھر سے واپس آ گئے ہیں، سرحدوں کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے، لوگ کدھر سے آ گئے، کون ذمہ دار ہے، اصل میں لوگ وفاقی حکومت کے خلاف نکلے ہیں، میری وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے بات کی ہے ہم کسی صورت اس طرح کی عسکریت پسندی نہیں ہونے دیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024