جان نکال لیتے تو پروا نہ تھی لیکن تشدد کرنے والوں نے عزت پر ہاتھ ڈالا، اعظم سواتی

شائع November 1, 2022
اعظم سواتی نے کہا کہ ایک ہزار یا چند سو لوگوں پر آئین کا اطلاق نہیں ہوتا— فوٹو: ڈان نیوز
اعظم سواتی نے کہا کہ ایک ہزار یا چند سو لوگوں پر آئین کا اطلاق نہیں ہوتا— فوٹو: ڈان نیوز

پی ٹی آئی رہنما سینیٹر اعظم سواتی نے خود پر زیر حراست ہونے والے تشدد کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا ہے کہ تشدد کرنے والے میری جان نکال لیتے تو پروا نہیں تھی لیکن میری عزت پر ہاتھ ڈالا گیا، چیف جسٹس مستقبل میں اس طرح کی بدسلوکی سے شہریوں کو بچانے کے لیے اس واقعے کی تحقیقات کریں۔

گزشتہ ماہ کے شروع میں مسلح افواج کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر درج کیے گئے مقدمے میں گرفتار کیے گئے اعظم سواتی نے یہ مطالبہ ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

اپنی گرفتاری کے بعد سے ہی اعظم سواتی الزام لگاتے رہے ہیں کہ انہیں برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے پیچھے 2 فوجی اہلکاروں کو قرار دیا اور ان کے نام لیے، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے بھی ان کے ساتھ پریس کانفرنس میں اعظم سواتی پر ہونے والے تشدد کی مذمت کی تھی، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بھی اس کی مذمت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مجھ پر تشدد و زیادتی کے ذمہ دار رانا ثنااللہ یا موجودہ حکومت نہیں، اعظم سواتی

آج پریس کانفرنس کے دوران اعظم سواتی نے ایف آئی اے کے ایک افسر کا نام بھی لیا۔

انہوں نے آئین پاکستان کو ہاتھ میں اٹھا کر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں موجود قوانین کا ایک ہزار یا چند سو لوگوں پر اطلاق نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ یہ میجر جنرل فیصل اور سیکٹر کمانڈر فہیم پر بھی لاگو نہیں ہوتا جو قانون سے ماورا اور بالاتر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم وِنگ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایاز کو جی ایچ کیو میں طلب کریں، ان سے پوچھیں، وہ میرے ساتھ ہوئی زیادتی کی تفصیلات 5 منٹ میں بتائیں گے کیونکہ میں نے دیکھا تھا کہ مجھے حراست میں لیے جانے کے وقت وہ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر تھا۔

مزید پڑھیں: جمعرات یا جمعے کو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کروں گا، عمران خان

اعظم سواتی نے کہا کہ حراست میں لیے جانے کے بعد پورے راستے وہ مجھے مارتے رہے اور میری ویڈیو بناتے رہے، انہوں نے کہا کہ تحقیقات ہونی چاہئیں کہ کون شخص تھا جو مجھے برہنہ کیے جانے کے وقت مذاق اڑا رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھ پر تشدد کرنے والے اگر میری جان نکال لیتے تو مجھے پروا نہیں تھی لیکن میری عزت پر ہاتھ ڈالا گیا ہے، میں اس کے خلاف تمام عالمی فورمز کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا، اگر ملک میں ایک سینیٹر محفوظ نہیں ہے تو کوئی بھی شہری محفوظ نہیں ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ان پر تشدد ان کی عزت اور ان کے خاندان کی عزت پر حملہ ہے، انہوں نے کلمہ پڑھ کر جنرل قمر جاوید باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے الفاظ سچ پر مبنی ہیں، مجھ پر تشدد کیا گیا، میرے کپڑے اتارے گئے۔

انہوں نے کہا کہ یہ 74 سالہ سینیٹر آپ کے لیے باعث شرم نہیں بن رہا، میں زندہ لاش ہوں جو اپنے بنیادی انسانی حقوق کے لیے لڑ رہا ہوں، میں سیاست نہیں کر رہا، میں چاہتا ہوں کہ میری اور میرے خاندان کی اس قربانی کی وجہ سے مستقبل میں کسی شہری، پروفیسر اور کسی جنرل کے کپڑے نہ اتریں۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کے خلاف متنازع ٹوئٹ: اعظم سواتی کو اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا

انہوں نے سپریم کورٹ سے بھی درخواست کی کہ وہ ان کے گھر کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرے اور ان کے دعوؤں کی سچائی کا تعین کرنے کے لیے فرانزک آڈٹ کا حکم دے۔

آرمی چیف کا نام لیتے ہوئے اعظم سواتی نے کہا کہ میں ارشد شریف کی طرح شہید نہیں ہوا، میں زندہ ہوں، جنرل قمر باجوہ براہ مہربانی اپنے ادارے کے لوگوں کو میرے پاس بھیجیں تاکہ اس بات کا پتلا چلایا جائے کہ ایک سینیٹر کے ساتھ ایسا وحشیانہ کھیل کس نے کھیلا۔

اپنی پریس کانفرنس کے دوران اعظم سواتی نے اپنے کیس کو سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو بھیجنے پر چیف جسٹس کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے اصرار کیا کہ یہ مقدمہ انسانی حقوق سے متعلق ہے، اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے چیف جسٹس اور ملک کے دیگر ججز سے اپیل کی کہ وہ انصاف فراہم کریں اور اس طرح کے ماورائے عدالت سلوک کو دوبارہ ہونے سے روکیں۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ان کا واحد جرم ایک طاقتور شخص کے بارے میں ٹوئٹ کرنا تھا، میں ایک سینیٹر ہوں اور میں پاکستان کے سپریم کمانڈر سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت اپنے اختیارات استعمال کریں، اگر یہ جرم تھا تو عدالتی کارروائی کی جائے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ اس کیس میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024