• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

’عدالت کو یہ نہ بتائیں معیشت دانوں کی کون سی غلطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں‘

شائع November 22, 2022
چیف جسٹس نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے میں وفاق بھی حصہ دار ہے اس لیے صوبائی حکومت کی سرمایہ کاری کی اجازت کا مسئلہ نہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
چیف جسٹس نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے میں وفاق بھی حصہ دار ہے اس لیے صوبائی حکومت کی سرمایہ کاری کی اجازت کا مسئلہ نہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ عدالت کو ڈرانے کے بجائے ریکوڈک معاہدے کی شفافیت سے متعلق بتائیں، عدالت کو یہ نہ بتائیں کہ معیشت دانوں کی کون سی غلطیوں کی ہم سزا بھگت رہے ہیں۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔

دوران سماعت ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کار بیرک گولڈ کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ صوبائی حکومتیں بین الاقوامی تجارتی منصوبوں میں داخل ہو سکتی ہیں لیکن ریاستی سطح کے معاہدے نہیں کر سکتیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے میں وفاق بھی حصہ دار ہے اس لیے صوبائی حکومت کی سرمایہ کاری کی اجازت کا مسئلہ نہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بیرک گولڈ عدالت سے رائے اس لیے چاہتی ہے کہ پچھلے ریکوڈک منصوبے کی طرح قانونی پیچیدگیوں سے بچا جاسکے کیونکہ پاکستان کے ڈیفالٹ میں جانے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

کمپنی کے وکیل نے دلائل دیے کہ ریکوڈک معاہدے میں پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی 4.297 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔

اس پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا بیرک گولڈ پاکستان کی معاشی صورتحال پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ عدالت کو ڈرانے کے بجائے ریکوڈک معاہدے کی شفافیت سے متعلق بتائیں، عدالت کو یہ نہ بتائیں کہ معیشت دانوں کی کون سی غلطیوں کی ہم سزا بھگت رہے ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بیرک گولڈ ملکوں کو دیوالیہ پن سے نکالنے کا کاروبار نہیں کرتی، اگر 15 دسمبر کو ریکوڈک معاہدہ طے ہو جاتا ہے تو پاکستان کا 9 ارب ڈالر کا جرمانہ ختم ہوجائے گا۔

وکیل نے دلائل دیے کہ معاہدے کے بعد انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کا متوقع جرمانہ بھی ختم ہو جائے گا اور سونے اور تانبے کے نکالے گئے ذخائر کو بندرگاہ کے ذریعے بیرون ملک بھیجا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ بیرک گولڈ، بلوچستان میں ریکوڈک کے مقام سے بندرگاہ تک زیر زمین پائپ لائن بنائے گی، نہ صرف یہ بلکہ بلوچستان میں سڑکیں اور کمیونٹی ڈیولپمنٹ بھی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ منصوبے سے بلوچستان میں پہلے 7 ہزار اور طویل مدتی طور پر 4 ہزار نوکریاں دی جائیں گی۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 23 نومبر تک ملتوی کردی۔

صدارتی ریفرنس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈان اخبار کی 19 جولائی کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کینیڈا کی مائننگ فرم بیرک گولڈ کارپوریشن کو توقع ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ، بلوچستان میں ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ منصوبے میں عالمی ثالثی کے تحت 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے راستہ بناتے ہوئے عدالت سے باہر کیے گئے اس کے 6 ارب ڈالر کے تصفیے کی منظوری دے گی۔

اس سے قبل 21 مارچ 2022 کو پاکستان نے غیر ملکی فرم کے ساتھ عدالت سے باہر معاہدہ کیا تھا، معاہدے کے تحت فرم نے 11 ارب ڈالر کا جرمانہ معاف کرنے اور 2011 سے رکے ہوئے کان کنی کے منصوبے بحال کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

19 جولائی 2022 کو وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور بیرک گولڈ کارپوریشن نے 14 اگست سے ریکوڈک گولڈ پروجیکٹ پر کام شروع کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024