پنجاب: مظفر گڑھ میں 11 سالہ لڑکی کی نازیبا تصاویر فیس بک پر اپ لوڈ کرنے والا ملزم گرفتار
پنجاب کے ضلعے مظفر گڑھ میں پولیس نے 11 سالہ لڑکی کی نازیبا تصاویر فیس بک پر اپ لوڈ کرنے کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کر لیا۔
مظفرگڑھ پولیس ترجمان وسیم خان گوپانگ نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ ملزم سے تفتیش کی جا رہی ہے، اور جس موبائل فون سے تصاویر اپ لوڈ کی گئی ہیں، اسے برآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
فرسٹ انفارمشین رپورٹ (ایف آئی آر) جس کی نقل ڈان ڈاٹ کام کے پاس موجود ہے، کے مطابق یہ واقعہ 29 نومبر کو پیش آیا، مقدمہ متاثرہ لڑکی کے والد کی شکایت پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 292 اور دفعہ 342 کے تحت محمود کوٹ پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا ہے۔
شکایت کنندہ نے ایف آئی آر میں بتایا کہ ان کی بیٹی اسکول کی چھٹی کے بعد گھر نہ پہنچی، کچھ دیر انتظار کے بعد میں اپنی بیٹی کو اسکول کے راستے تلاش کرنے نکل گیا۔
ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ جب وہ اپنی بیٹی کو تلاش کر رہے تھے تو ان کے رشتے دار نے بتایا کہ ملزم نے ان کی بیٹی کی نازیبا تصاویر فیس بک پر اپ لوڈ کر دی ہیں۔
ایک رشتے دار نے تصویر کا اسکرین شاٹ لیا تھا، جو لڑکی کے والد نے بطور ثبوت پولیس کو پیش کیا۔
فرسٹ انفارمشین رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ تصاویر کا بیک گراؤنڈ ملزم کے گھر کا تھا، جس کے بعد ہم ملزم کے گھر پہنچے اور لڑکی کو بازیاب کیا۔
ایف آئی آر کے مطابق لڑکی نے بتایا کہ جب وہ اسکول سے آ رہی تھی تو ملزم نے زبردستی اس کو اندر کی طرف گھیسٹا جہاں ملزم کا بھائی بھی موجود تھا، اس کے بعد دونوں میں اس کی تصاویر بنائیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ تصاویر بنانے کے بعد مرکزی ملزم موبائل فون اٹھا کر بھاگ گیا جبکہ دوسرے ملزم نے دھمکی دی کہ اگر شور مچایا تو تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دے گا۔
شکایت کنندہ نے پولیس سے درخواست کی کہ ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے جولائی میں بتایا تھا کہ گزشتہ 5 سالوں میں بچوں کو جنسی ہراساں کرنے کے صرف 343 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر محمد طاہر رائے نے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ڈیجیٹل سیفٹی ڈائیلاگ کے عنوان سے ہونے والے ایونٹ میں بتایا تھا کہ بدقسمتی سے ہم سب سے زیادہ واقعات والے ممالک میں شامل ہیں، جن کی تعداد 2021 میں 21 لاکھ تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری قوم ان واقعات کو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور میٹا کو بھی نہیں بتاتے، جس کی وجہ سے گزشتہ 5 برسوں میں اس طرح کے صرف 343 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔