انسانی حقوق کمیٹی کا نیشنل چائلد رائٹس پینل کی کارکردگی پر اظہار برہمی
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی چیئرپرسن ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو نے بچوں کے حقوق سے متعلق صفر کارکردگی پر قومی کمیشن برائے چائلڈ رائٹس (این سی آر سی) کے حکام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو نے دیگر اراکین کے ہمراہ پینل کے ساتھ کام کرنے والے کمیشن میں موجود بچوں کو وظیفہ نہ ملنے اور ’زینب الرٹ بل‘ کے رولز کی تصدیق کی ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا۔
اجلاس میں این سی آر سی کے ڈائریکٹر جنرل کو اپنی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے خبردار کیا گیا اور واضح کیا گیا کہ مزید کوئی ریلیف نہیں دیا جائے گا۔
اجلاس میں کہا گیا کہ قومی کمیشن کی بچوں کے لیے کارکردگی صفر رہی ہے۔
شرکا نے کہا کہ اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے کمیشن کے پاس وقت تھا مگر کوئی کام نہیں کیا گیا۔
ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو نے مارچ 2020 میں منظور ہونے والے زینب الرٹ رسپانس اور ریکوری بل کے قواعد و ضوابط نہ ملنے پر بھی مایوسی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ زینب الرٹ بل کو پاس ہوئے تین برس ہوگئے ہیں، اگر 17 جنوری تک زینب الرٹ بل کے رولز موصول نہیں ہوتے تو استحقاق کی تحریک پیش کی جائے گی۔
چیئرپرسن نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بل منظور ہونے کے 6 ماہ کے اندر زینب الرٹ بل کے رولز بنانے چاہیے تھے۔
اڈیالہ جیل کے خدشات، بغیر لائسنس دماغی صحت کے مراکز
اجلاس کے دوران قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) کی چیئرپرسن رابعہ جویریہ آغا نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کی ’انتہائی خراب‘ صورتحال پر روشنی ڈالی، جہاں این سی ایچ آر کی اکتوبر 2022 کی رپورٹ کے مطابق قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور 82 بچے قید میں ہیں۔
چیئرپرسن رابعہ جویریہ آغا نے کہا کہ اڈیالہ جیل کے حالات انتہائی خراب ہیں اور قیدیوں پر اتنا تشدد کیا گیا ہے کہ ان کی کھال بھی باہر آگئی تھی۔
کمیشن کی رپورٹ پر بات کرتے ہوئے رابعہ جویریہ آغا نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں 82 بچے قید تھے جن کو ہم وکلا فراہم کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم نے بچوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا کہا تو کوئی بھی بچوں کو لینے کو تیار نہ ہوا۔
این سی ایچ آر کی چیئرپرسن نے کہا کہ اڈیالا جیل میں تعینات افسر بہت ہی طاقتور ہیں جن کا تبادلہ کرنا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ ان کے ہر طرح کے روابط ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قیدیوں کو مبینہ طور پر نشہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ این سی ایچ آر کی رپورٹ کے بعد سات افسران کو نکالا گیا، چار کو معطل کیا گیا اور 38 اہلکاروں کا تبادلہ کیا گیا، مزید کہا کہ ہائی کورٹ نے بھی جیل میں شکایتی سیل تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔
کمیٹی کے رکن عبدالقادر مندوخیل نے کہا کہ تعلیمی اداروں اور جیلوں میں آسانی سے منشیات سپلائی کی جاتی ہے۔
اجلاس کے دوران رابعہ جویریہ آغا نے دارالحکومت میں بغیر لائسنس دماغی صحت کے مراکز کے بارے میں بھی بات کی جو مبینہ طور پر لوگوں کو ان کی مرضی کے خلاف حراست میں رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ایسے 20 دماغی صحت کے مراکز ہیں جو لائسنس کے بغیر کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک لڑکی نے مدد کے لیے رابطہ کیا تھا کہ ان کی دوست کو اغوا کیا گیا ہے مگر جب تنظیمی ٹیم ان کے دوست سے ملنے گئی تو وہ ایک دماغی صحت کے سینٹر میں تھیں۔
این سی ایچ آر رپورٹ کے اثرات
این سی ایچ آر کی ٹیم نے 21 ستمبر 2022 سے اڈیالہ جیل کے سات دورے کیے جس کے دوران متعدد قیدیوں نے جیل حکام کے ہاتھوں تشدد اور ظالمانہ، غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک کی شکایت کی۔
رپورٹ میں کیے گئے اعتراف پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اکتوبر 2022 میں حکومت کو مروجہ بدسلوکی کو روکنے کے لیے جیلوں میں شکایتی سینٹر تشکیل دینے میں این سی ایچ آر کی معاونت کرنے کا حکم دیا تھا۔
اجلاس میں پنجاب کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) جیل خانہ جات کے خلاف بھی کارروائی کی سفارش کی گئی جس کے بعد آئی جی نے سینٹرل جیل اڈیالہ کے سات اہلکاروں کو جیل کے قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد میں ملوث ہونے پر برطرف کردیا۔
تاہم انسانی حقوق کی وزارت فنڈز کی کمی کی وجہ سے زیر سماعت نابالغ قیدیوں کی قید ختم کرنے کے لیے ضمانت کے بانڈز جمع کرانے میں ناکام رہی۔