• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پشاور ہائیکورٹ بار روم میں فائرنگ، معروف قانون دان لطیف آفریدی جاں بحق

شائع January 16, 2023
پشار پولیس نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فائرنگ کا واقعہ پشاور ہائی کورٹ کے سامنے پیش آیا—فائل فوٹو:ڈان
پشار پولیس نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فائرنگ کا واقعہ پشاور ہائی کورٹ کے سامنے پیش آیا—فائل فوٹو:ڈان

سینئر وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی پشاور ہائی کورٹ کے بار روم میں قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوگئے۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کاشف عباسی نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ سنیئر وکیل لطیف آفریدی پشاور ہائی کورٹ کے بار روم میں دیگر وکلا کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جب مسلح شخص نے ان پر فائرنگ کر دی۔

سینئر وکیل کو فوری طور پر طبی امداد فراہم کرنے کے لیے قریبی واقع لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ترجمان ایل آر ایچ محمد عاصم نے تصدیق کی کہ لطیف آفریدی ہسپتال میں دوران علاج زخموں کی تالاب نہ لاتے ہوئے انتقال کرگئے۔

محمد عاصم نے یہ بھی کہا کہ سینئر وکیل کو متعدد گولیاں لگیں۔

سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے اور اس کی شناخت عدنان آفریدی کے نام سے ہوئی ہے جوکہ مقتول کا رشتے دار ہے، کاشف عباسی نے مزید کہا کہ حملہ آور سے اسلحہ، شناختی کارڈ اور ایک اسٹوڈنٹ کارڈ برآمد ہوا ہے۔

کاشف عباسی نے مزید کہا کہ پولیس کو شبہ ہے کہ یہ حملہ ’ذاتی دشمنی‘ کا شاخسانہ ہے۔

حملہ آور کے کزن آفتاب آفریدی جو سوات میں انسداد دہشت گردی کے جج تھے، گزشتہ سال فائرنگ کے واقعے میں قتل کردیے گئے تھے، لطیف آفریدی اور ان کے خاندان کے افراد کو مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا لیکن بعد میں انسداد دہشت گردی عدالت صوابی نے انہیں بری کر دیا تھا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پشاور ہائی کورٹ بار روم، ہائی کورٹ کے احاطے میں ہی واقع ہے جہاں داخلی راستے پر باقاعدگی سے سخت سیکیورٹی ہوتی ہے اور لوگوں کو صرف شناختی کارڈ دکھانے پر ہی اندر جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔

پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے واقعے کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ایک شخص اسلحہ کے ساتھ بار روم تک کیسے پہنچنے میں کامیاب ہوا۔

لطیف آفریدی ایڈوکیٹ 14 نومبر 1943 کو پیدا ہوئے، وہ دو ہزار بیس اکیس کے دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہے، لطیف آفریدی پاکستان بار کونسل کے نائب صدر اور پشاور ہائی کورٹ بار کے صدر بھی رہے۔

لطیف آفریدی 1986 سے 1989 تک عوامی نیشنل پارٹی کے پہلے صوبائی صدر رہے ، وہ 205 سے 2007 تک اے این پی کے جنرل سیکریٹری رہے جب کہ 1997سے 1999کے دوران قومی اسمبلی کے رکن رہے، مقتول سینئر وکیل نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سینیر رہ نما تھے۔

اظہار تعزیت اور مذمت

معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے لطیف آفریدی کے قتل کی مذمت کی۔

وزیراعظم شہباز شریف نے لطیف آفرید کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نامور قانون دان اورسابق صدر سپریم کورٹ بار کےپشاور میں بیہمانہ قتل پر دلی دکھ اور رنج ہوا۔

ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ ان کی بلندی درجات اور لواحقین کے لیے صبرِ جمیل کی دعا ہے، خیبر پختونخوا میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال تشویشناک ہے، صوبائی حکومت اس کی بہتری کے لیے فی الفور اقدامات اٹھائے۔

آصف زرداری نے شہید عبدالطیف آفریدی کے خاندان اور خیبر پختونخوا کے عوام سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکن شہید عبدالطیف آفریدی کے خاندان کے دکھ میں شریک ہیں۔

ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں سابق صدر آصف علی زرداری نے عبدالطیف آفریدی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ جمہوریت پسند اور شدت پسندی کے سخت مخالف تھے، ان کا قتل انتہائی افسوسناک ہے ۔

آصف زرداری نے کہا کہ شہید عبدالطیف آفریدی کی جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد ناقابل فراموش ہے، وہ دہشتگردوں اور شدت پسندوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد خان نے سینئر وکیل لطیف خان آفریدی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے، صوبائی حکومت کی کوئی رٹ نہیں ہے، کوئی سیکیورٹی نہیں ہے، قاتل اور دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں۔

دوسری جانب سپریم کورٹ بار کے سابق صدر احسن بھون نے سینئر وکیل کے قتل پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لطیف آفریدی نے ہمیشہ حقوق سے محروم لوگوں کے لیے آواز بلند کی۔

احسن بھون نے نجی نیوز چینل ’جیو‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ طلبہ یونین کا حصہ رہے اور بعد میں انہوں نے اے این پی میں شمولیت اختیار کی، انہوں نے مزید کہا کہ مقتول وکیل نے سابق آمر ایوب خان کے دور بھی میں مارشل لا کے دوران مشکل وقت کا سامنا کیا۔ .

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر نے کہا کہ لطیف آفریدی جمہوریت کے بڑے حامی تھے، انہوں نے زندگی بھر تمام جمہوریت مخالف قوتوں کے خلاف مزاحمت کی۔

ادھر لاہور ہائی کورٹ بار اور لاہور بار کے صعر نے لطیف آفریدی کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کل ہڑتال کی کال دے دی۔

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سردار اکبر علی ڈوگر اور نائب صدر سہیل شفیق چوہدری نے کہا کہ وکلا یہاں تک کہ عدالت کے اندر اور بار رومز میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

انہوں نے حکومت سے مکمل سیکیورٹی کا مطالبہ کیا۔

لاہور بار ایسوسی ایشن نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کے قاتلوں کی فی الفور گرفتاری کا مطالبہ کیا۔

لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر رانا انتظار حسین نے کہا کہ دہشت گردی نے ملک کو ایک مرتبہ پھر لپیٹ میں لیا ہے اور وکلا کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئے روز وکلا کو عدالتوں کے اندر نشانہ بنایا جا رہا ہے، وکلا کو سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں، وکلا کل عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے۔

سینئر وکیل کے قتل پر سوال اٹھاتے ہوئے صحافی عاصمہ شیرازی نے سوال کیا کہ لطیف آفریدی پر حملے کا ذمہ دار کون ہے؟

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024