• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

شہباز شریف کا اعتماد کا ووٹ ناکام بنانے کیلئے پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ

شائع January 17, 2023
عمران خان نے کہا کہ پارٹی رہنماؤں اور قانونی ماہرین کے ساتھ منصوبہ بندی اور مشاورت جاری ہے — فائل فوٹو/ عمران خان فیس بک
عمران خان نے کہا کہ پارٹی رہنماؤں اور قانونی ماہرین کے ساتھ منصوبہ بندی اور مشاورت جاری ہے — فائل فوٹو/ عمران خان فیس بک

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے وزیراعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں پارٹی کے منحرف اراکین کی جانب سے مدد نہ ملنے کو یقینی بنانے کے لیے قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے منحرف رکن راجا ریاض کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی لیڈر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد پی ٹی آئی کو خدشہ ہے کہ اگر صدر ڈاکٹر عارف علوی نے شہباز شریف سے اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا تو راجا ریاض وزیراعظم کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ پر میڈیا کے نمائندوں سے ملاقات میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ پارٹی رہنماؤں سمیت قانونی ماہرین کے ساتھ منصوبہ بندی اور مشاورت جاری ہے کہ کس طرح پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے حکمران اتحاد کا ساتھ دینے سے روکا جا سکتا ہے۔

راجا ریاض پی ٹی آئی کے ان اراکین قومی اسمبلی کے گروپ کی قیادت کرتے ہیں جنہوں نے گزشتہ برس اپریل میں عمران خان کی وزیراعظم کے عہدے سے برطرفی کے بعد استعفیٰ نہیں دیا تھا جبکہ پی ٹی آئی نے اسمبلی چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے پارٹی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کو جانچنے کے لیے اپنے اراکین اسمبلی کو قومی اسمبلی بھیجا جاسکتا ہے جن کی تعداد پی ٹی آئی کے منحرف اراکین سے زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورت میں بھی راجا ریاض کا بطور پارلیمانی لیڈر فیصلہ غالب آ سکتا ہے کیونکہ راجا ریاض کو پارلیمانی لیڈر کے عہدے سے ہٹانے کے لیے وقت اور کوششیں درکار ہوں گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی وفاقی سطح پر نگراں سیٹ اپ پر بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی کیونکہ اس کا خیال ہے کہ یہ معاملہ بالآخر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی عدالت میں جائے گا، تاہم پی ڈی ایم کی صفوں میں دراڑیں پڑتی محسوس کرتے ہوئے پی ٹی آئی ایوان میں وزیراعظم شہباز شریف کی طاقت کو ’ٹیسٹ‘ کرنے پر غور کر رہی ہے۔

پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما فواد چوہدری نے بتایا کہ ’پارٹی کی قومی اسمبلی میں واپسی وزیر اعظم شہباز شریف کو عہدے سے برطرف کرنے کے منصوبے سے جڑی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی اس بارے میں قانونی رائے حاصل کر رہی ہے کہ اپنے اراکین قومی اسمبلی کو کس طرح پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کی صورت میں پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ دیں، یہ ہدف قومی اسمبلی میں واپسی کے بغیر حاصل کرنے پر بھی مشاورت ہورہی ہے، ہم قومی اسمبلی میں واپسی کا حتمی فیصلہ قانونی مشورے کی بنیاد پر کریں گے‘۔

فواد چوہدری نے واضح کیا کہ ’قومی اسمبلی میں واپسی پر غور کرنے کی واحد وجہ نگراں سیٹ اپ پر بات چیت نہیں ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نگراں سیٹ اپ کے بارے میں فیصلہ بالآخر مسلم لیگ (ن) کی خواہشات کے مطابق ہی کرے گا‘۔

دریں اثنا وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’حکومت پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو قومی اسمبلی میں واپسی پر خوش آمدید کہے گی‘، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ’وفاقی حکومت نگراں سیٹ اپ پر بات چیت اگست میں حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد ہی کرے گی‘۔

اطلاعات کے مطابق عمران خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ نگراں سیٹ اپ کو حتمی شکل دینے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں واپس آئیں گے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’جلد وزیر اعظم شہباز شریف کی راتوں کی نیندیں اڑنے والی ہیں، مسلم لیگ (ن) کے کچھ اراکین اسمبلی پی ٹی آئی کے ساتھ رابطے میں ہیں، انہیں جانچنے کے بعد انہیں خوش آمدید کہا جائے گا‘۔

عمران خان نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت بری طرح پھنس چکی ہے کیونکہ وہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتی اور یہ اقدام آئی ایم ایف کو پاکستان سے دور کردے گا۔

اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تنقید کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ کی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

انہوں نے سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی شکست کی وجہ پی ٹی آئی کراچی کی تنظیمی کمزوریوں اور پیپلز پارٹی کی جانب سے ’دھاندلی‘ کو قرار دیا۔

دریں اثنا پی ٹی آئی چیئرمین نے پارٹی ترجمانوں کا اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں ملک کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا اور آنے والے روز میں پارٹی کے بیانیے پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024