• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

فوج، عدلیہ کو بدنام کرنے پر 5 سال سزا کی تجویز، ڈرافٹ تیار

شائع February 4, 2023
بل کابینہ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا—فائل/فوٹو: ڈان
بل کابینہ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا—فائل/فوٹو: ڈان

وفاقی حکومت نے تعزیرات پاکستان اور کوڈ آف کریمنل پروسیجر میں ترمیم کرتے ہوئے فوج اور عدلیہ کو بدنام کرنے پر 5 سال سزا کے لیے قانون کا ڈرافٹ تیار کرلیا۔

حکومت کی جانب سے تیار کیے گئے ڈرافٹ کی کاپی ڈان ڈاٹ کام کو دستیاب ہے، وزارت قانون کی جانب سے تیار کردہ ڈرافٹ وزارت داخلہ کے ذریعے وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کو پیش کردیا گیا ہے۔

کابینہ کی اس حوالے سے سمری میں جلد پیش ہونے والے بل سے متعلق واضح ہے کہ سوشل میڈیا پر فوج اور عدلیہ پر تنقید کی جا رہی ہے۔

وزارت داخلہ کے ذرائع نے بتایا کہ سمری اور بل جلد ہی وفاقی کابینہ کو بھیج دیا جائے گا۔

فوجداری قوانین (ترمیمی) ایکٹ 2023 کے عنواں سے بل میں تعزیرات پاکستان 1860 میں سیکشن 500 کے بعد 500 اے کی نئی سیکشن کی تجویز دی گئی ہے، جس کو ’ریاستی اداروں کو جان بوجھ کر بدنام کرنے اور تضحیک کا نشانہ بنانے‘ کا نام دیا گیا ہے۔

ڈرافٹ میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی عدلیہ، مسلح افواج یا ان کے کسی بھی رکن کو بدنام کرنے یا تضحیک کا نشانہ بنانے کی نیت سے کوئی بیان دے یا معلومات کسی بھی ذرائع سے پھیلائے تو اس کو قید کی سزا کا مرتکب قرار دیا جائے گا اور اس میں 5 سال تک توسیع یا جرمانے کے ساتھ سزا ہوسکتی ہے، جرمانہ 10 لاکھ روپے یا جرمانہ اور قید دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔

تعزیرات پاکستان کے شیڈول 2 میں سیکشن 500 کے ساتھ 500 اے کا اضافہ کردیا گیا ہے، جس کے تحت مجرم کو وارنٹ کے بغیر گرفتار کیا جائے گا اور الزام ناقابل ضمانت اور ناقابل مصالحت تصور کیا جائے گا اور اس کو صرف سیشن کورٹ میں چیلنج کیا جاسکے گا۔

کابینہ کی سمری میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں ریاست کے مخصوص اداروں کو حال ہی میں بدنام کرنے، تضحیک کا نشانہ بنانے اور بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں، ان اداروں میں عدلیہ اور مسلح افواج شامل ہے۔

ڈرافت میں بتایا گیا ہے کہ ذاتی مفادات ک لیے سائبر مہم شروع کی گئی ہے جس کا مقصد مخصوص ریاستی اداروں اور ان کے عہدیداروں کے خلاف اشتعال دلانا اور نفرت پھیلانا ہے۔

مزید بتایا گیا ہے کہ اس طرح کے حملوں سے ملک کے ریاستی اداروں کا استحکام، شہرت اور آزادی کو جان بوجھ کر داغ دار کیا جا رہا ہے۔

سمری میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ اور فوج کے عہدیداروں کو سامنے آنے اور اسکینڈلائز کرنے، تضحیک آمیز بیانات کا جواب دینے کا موقع نہیں ملتا۔

حکومت کی جانب سے تیار کیے گئے ڈرافٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ مجوزہ سیکشن کے غلط استعمال سے روکنے کے لیے کریمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 196 کے تحت کسی بھی شخص کا ادراک کرنے یا کسی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے سے پہلے وفاقی حکومت سے لازمی طور پر منظوری لی جائے گی۔

مسلم لیگ(ن) کے شاہد خاقان عباسی حامی

مسلم لیگ(ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے اس حوالے سے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ انہوں نے بل نہیں دیکھا لیکن کسی کو بدنام کرنے سے روکنے کے لیے کوئی حد ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا میں ہر جگہ ہتک عزت کا قانون ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی اٹھ کر جو چاہے بول دے‘۔

دوسری جانب مسلم لیگ(ن) کے ہی رکن قومی اسمبلی روحیل اصغر کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ایسا کوئی قانون منظور نہیں کرنا چاہیے اور اگر اس طرح کا کوئی قانون بنایا گیا تو ان کو بھگتنا پڑے گا۔

روحیل اصغر نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ اداروں پر تنقید سے ان کی بدنامی ہوتی ہے اور کہا کہ اگر ووٹر اپنے حلقے کے سربراہ پر تنقید کرسکتے ہیں تو پھر کسی پر بھی تنقید ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اظہار آزادی کو روکنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور تنقید کے لیے گنجائش رکھنی چاہیے۔

بعد ازاں شاہد خاقان عباسی نے اپنے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے وحشیانہ قانون سازی کی حمایت نہیں کرسکتا۔

انہوں نےکہا کہ میرا ماننا ہے کہ پاکستان میں کسی پر بے بنیاد الزام تراشی سے روکنے کے لیے ہتک عزت کے قانون کی ضرورت ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیرین مزاری نے ٹوئٹ میں کہا کہ مجوزہ بل پاکستان میں جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرویلین ریاست بناتے ہوئے ہم سیاست دانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح کے اقدامات ممکنہ طور پر ہم سب کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

یاد رہے کہ اسی طرح کا ایک بل اپریل 2021 میں قومی اسمبلی سے منطور ہوا تھا، جس میں مسلح افواج کو بدنام کرنے پر دو سال قید اور جرمانے کی سزا تجویز کی گئی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں پیش کیے گئے بل پر سیاست دانوں کی جانب سے تنقید کی گئی تھی اور وکلا میں تقسیم نظر ائی تھی۔

مذکورہ بل کی مخالفت صرف اپوزیشن نے ہی نہیں بلکہ اس وقت کے وفاقی وزرا فواد چوہدری اور ڈاکٹر شیریں مزاری کی جانب سے بھی کی گئی تھی۔

فواد چوہدری نے کہا تھا کہ یہ انتہائی مضحکہ خیز خیال ہے کہ تنقید کو قابل جرم بنایا جائے، لوگوں پر پابندیاں عائد کرکے احترام نہیں کروایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے نئے قوانین بنانے کے بجائے توہین عدالت اور اس طرح کے قوانین پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی امجد علی خان نے کریمنل لا ترمیمی بل 2020 کے عنوان سے پیش کیا تھا اور قومی اسمبلی کی کمیٹی سے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے آغا رفیع اللہ اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی مریم اورنگزیب کی مخالفت کے باوجود منظور کیا گیا تھا تاہم دونوں ایوانوں سے مختلف وجوہات کے باعث منظور نہیں ہوپایا تھا۔

اسی طرح گزشتہ برس نومبر میں حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) ایکٹ 1974 میں ترمیم کی تھی، جس کے تحت ایف آئی اے کو سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف افواہیں اور غلط معلومات پھیلانے پر کسی کے خلاف بھی کارروائی کا اختیار ہوگا۔

قانون میں ترمیم کے حوالے سے رپورٹس سامنے آنے کے بعد وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ اگر بل اظہار رائے کے خلاف ہے تو پھر یہ منظور نہیں ہوگا اور میں اس کی حمایت نہیں کروں گا۔

اس کے بعد اس طرح کی کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024