پورٹس پر پھنسے 5 ہزار 630 کنٹینرز کی کلیئرنس تاحال تعطل کا شکار ہے، کراچی چیمبر
ان حالات میں جب کہ ملک کے مخلتف پورٹس پر درآمدی اشیا کے پھنسے ہوئے 5 ہزار 630 کنٹینرز کو بندرگاہوں سے نکالنے کی کوششیں جاری ہیں، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) نے اعلان کیا ہے کہ 18ویں ’مائی کراچی-ہارمونی اوسیس‘ نمائش آئندہ ماہ منعقد کی جائے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اپنے بیان میں کہا کہ نمائش کا مقصدد دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ پاکستان کی کاروباری برادری مشکلات اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کی حامل ہے اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بزنس مین گروپ (بی ایم جی) کے چیئرمین زبیر موتی والا نے کہا کہ مسلسل معاشی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے صرف 4 ممالک انڈونیشیا، تھائی لینڈ، سری لنکا اور فلپائن 3 مارچ سے5 مارچ تک کراچی ایکسپو سینٹر میں جاری رہنے والی نمائش میں شرکت کریں گے۔
گزشتہ سال منعقد کی گئی نمائش میں 12 ممالک سے تعلق رکھنے والے تاجروں نے شرکت کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ نمائش کے انعقاد کے لیے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، اس نمائش کا مقصد کراچی کے مثبت تشخص کو فروغ دینا ہے، نمائش میں 10 لاکھ افراد کی شرکت متوقع ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ نمائش ایکسپو سینٹر کے تمام 6ہالز میں منعقد کیا جائے گی جس میں 350 اسٹالز ہوں گے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے زبیر موتی والا نے کہا کہ 2 ہفتے قبل کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) میں وزیر برائے بحری امور سیکریٹری تجارت، چیئرمین کے پی ٹی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سینئر حکام کی موجودگی میں شپنگ لائنز اور ٹرمینل آپریٹرز کے نمائندوں کی جانب سے کی گئیں کمٹمنٹ کے باوجود پھنسے ہوئے کنٹینرز کو تاحال جاری نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ڈیمریج/ڈٹینشن چارجز پر زیادہ سے زیادہ ریلیف کی یقین دہانیوں کے باوجود تاحال اس سلسلے میں کوئی اعلان نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے تاجروں اور صنعت کاروں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کو حل کرنے میں تاخیر کی وجہ سے درآمدی کنسائنمنٹس کی قیمت میں ڈیمریج/ڈٹینشن کے غیر معمولی چارجز کی وجہ سے اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ بعض صورتوں میں اس کی لاگت کنٹینرز کے اندر موجود سامان کی اصل قیمت سے بھی بڑھ گئی ہے، اس صورتحال کی وجہ سے درآمد کنندگان کے لیے ان کنسائنمنٹ کو کلیئر کرانا ناقابل عمل اور نقصان کا سودا ہوگا۔