• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:34pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:59pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 4:03pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:34pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:59pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 4:03pm

پائی میک 2023ء: بِلیو اکانومی کی پہلی نمائش اور ملکی معیشت کے لیے مواقع

شائع February 10, 2023

بحیرہ ہند کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاک بحریہ خطے کی واحد پروفیشنل بحریہ ہے جس کے پاس سمندری جنگ لڑنے کا طویل تجربہ موجود ہے اور اس کے خطے کے ملکوں کے ساتھ بحری شعبے میں اچھے تعلقات بھی ہیں۔

پاک بحریہ مختلف دوست ملکوں کے ساتھ جنگی مشقیں کرتی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد پُرامن بقائے باہمی ہے اور ملک کی سمندری سفارت کاری میں بحریہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان بحیرہ ہند اور ملحقہ سمندروں میں امن قائم رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کے تحت انسداد دہشت گردی اور انسداد بحری قذاقی کی ٹاسک فورس 150 اور 151 کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ دونوں ٹاسک فورس کی متعدد مرتبہ کمانڈ بھی کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ پاک بحریہ دوست ملکوں کے ساتھ دنیا بھر میں اور مخلتف سمندروں میں مشترکہ مشقیں بھی کرتی ہے تاکہ بوقت ضرورت ہر طرح کے حالات سے نمٹا جاسکے۔

پاکستانی سفارتی فلسفے کی بنیاد پر ہی پاک بحریہ سال 2007ء سے ’امن‘ بحری مشقوں کا اہتمام کررہی ہے۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے امن مشقوں کا مقصد خشکی کے ساتھ ساتھ سمندروں پر بھرپور نگرانی رکھنا ہے تاکہ شرپسند ریاستی یا غیر ریاستی عناصر سمندروں میں امن کو خراب نہ کرسکیں۔ ان مشقوں میں دوست ملکوں کی بحری افواج اپنے بحری اثاثوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر شریک ہوتی ہیں۔ امن مشقیں دنیا کی مخلتف بحری افواج کے درمیان مل جل کر کام کرنے اور پیشہ ورانہ صلاحیت کو بڑھانے کے عزم کے ساتھ منعقد کی جاتی ہیں۔

امن مشقوں کا اہتمام ہر 2 سال کے بعد کیا جاتا ہے۔ اس سال امن مشقیں 10 سے 14 فروری کو منعقد کی جارہی ہیں۔ اس میں 110 ملکوں کی بحریہ کے اعلیٰ افسران اور دیگر مندوبین و مبصرین شریک ہوں گے۔ شریک ہونے والے ملکوں کی بڑی تعداد اپنے بحری اثاثوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ امن مشقوں میں بحریہ کی 4 جہتی آپریشنل صلاحیت یعنی سطحِ آب، زیرِ آب، فضا اور زمین پر آپریشن کرنے کی صلاحیتوں کی مشق اور مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

مگر یہ مشق صرف سمندر اور بندرگاہ تک محدود نہیں رہتی ہے۔ ان مشقوں کے ساتھ پاکستان نیوی میری ٹائم کانفرنس کا انعقاد بھی کررہی تھی اور اب کانفرنس کے علاوہ بحری نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جس کا آغاز آج سے ہورہا ہے۔ اس نمائش کو پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس یعنی پائی میک کا نام دیا گیا ہے۔

پائی میک کے 2 حصے ہیں۔ ایک میری ٹائم کانفرنس جبکہ دوسرا میری ٹائم ایکسپو ہے۔ امن مشق کے ساتھ پہلے بھی میری ٹائم کانفرنس منعقد ہوتی تھی اور اس میں میری ٹائم شعبے میں ٹیکنالوجی، سفارت کاری اور اسٹریٹجک نوعیت کے مقالے پڑھے جاتے رہے ہیں۔

اس سال کانفرنس کے ساتھ ساتھ میری ٹائم ایکسپو کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ایکسپو سینٹر کراچی میں ہونے والی اس نمائش میں بحری جنگ کے حوالے سے پاکستان میں تیار ہونے والے آلات، میزائل اور دیگر ہیتھاروں کی نمائش کی جائے گی۔ اس کے علاوہ دوست ملکوں کی بحریہ اور بحری آلات تیار کرنے والے اداروں کے آلات بھی نمائش کے لیے پیش کیے جائیں گے۔

جنگی آلات کے علاوہ اس نمائش میں بِلیو اکانومی کے فروغ کے لیے بھی متعدد اسٹالز لگائے جائیں گے۔ بِلیو اکانومی کیا ہے اس حوالے سے دو بلاگ سال 2018 میں شائع ہوچکے ہیں۔ مگر آگے بڑھنے سے پہلے اس کا ایک مختصر جائزہ لے لیتے ہیں۔

دنیا کے رقبے کا 71 فیصد پانی یعنی سمندروں پر مشتمل ہے اور اتنی بڑی مقدار میں پانی ہونے کی وجہ سے اگر خلا سے دیکھا جائے توزمین نیلی دکھائی دیتی ہے۔ اسی نسبت سے زمین کو نیلا سیارہ یا بِلیو پلینٹ کہا جاتا ہے اور اسی طرح سمندر سے وابستہ معاشی سرگرمیوں کو بِلیو اکانومی کہا جاتا ہے۔

جیسے جیسے انسانوں کا انحصار سمندر پر بڑھا ہے ویسے ویسے تہذیبی مراکز اور انسانی آبادی سمندروں کے آس پاس منتقل ہوگئی ہے اور اب دنیا میں زیادہ تر آبادی سمندروں کے کنارے آباد شہروں میں رہتی ہے۔ اس جدید طرز زندگی نے انسان کا انحصار ہر گزرتے دن سمندر پر بڑھا دیا ہے۔ اسی وجہ سے سمندروں میں میعشت کا ایک پیچیدہ جال بنا ہوا ہے جس کو نیلے سیارے کی نسبت سے بِلیو اکانومی کہا جاتا ہے۔

دنیا میں 45 ملک بغیر سمندر کے ہیں جبکہ 152 ملکوں کو سمندر کی نعمت دستیاب ہے۔ سمندر سے محروم ملکوں کو لینڈ لاک کہا جاتا ہے اور ان کو بِلیو اکانومی کے مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ عالمی سطح پر بِلیو اکانومی کا مجموعی حجم ڈیڑھ ہزار ارب ڈالر ہے اور یہ مجموعی معیشت کا 7 واں بڑا شعبہ بن گیا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ سال 2023ء تک بِلیو اکانومی کا حجم 3 ہزار ارب ڈالر سالانہ ہوجائے گا جبکہ سائنسدانوں نے سمندر میں موجود وسائل کا تخمینہ 24 ہزار ارب ڈالر لگایا ہے۔

انسانی آبادی کے ایک بڑے حصے کے روزگار کا انحصار سمندر پر ہے۔ انسان خوراک کی تلاش میں سمندر کے اندر ماہی گیری کرتا ہے اور تقریباً 35 کروڑ افراد اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ دنیا کا 80 فیصد سامان تجارت سمندرکے ذریعے ملکوں ملکوں پہنچتا ہے۔ سمندر خوراک اور نقل و حرکت کے علاوہ قیمتی معدنیات کا بھی بڑا ذخیرہ اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ 34 فیصد خام تیل بھی سمندر میں کنوؤں سے حاصل ہوتا ہے۔

پاکستان کی خطے میں ایک اہم جغرافیائی اہمیت ہے۔ پاکستان کے سمندر کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس کی ساحلی پٹی تقریباً ایک ہزار کلومیٹر طویل ہے۔ کسی بھی ملک کے ساحل سے 12 ناٹیکل میل تک کی اس کے بحری حدود ہوتی ہیں جس میں جہاز رانی، سمندری حیات، اور معدنیات پر اسی ملک کا حق ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کا خصوصی معاشی زون 2 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس زون میں موجود تمام تر سمندری حیات اور معدنیات پر پاکستان کا حق ہے اس کے علاوہ خصوصی کاٹینینٹل شیلف کا رقبہ 50 ہزار مربع کلومیٹر ہے جہاں پاکستان کو سمندر کی تہہ میں موجود معدنیات پر خصوصی اختیار حاصل ہے۔ پاکستان دنیا کے مصروف ترین جہاز رانی کے روٹس پر واقع ہے اور انتہائی گہرے پانی کی بندرگاہیں اسی خطے میں واقع ہیں۔ دریائے سندھ کا ڈیلٹا دنیا کے 6 بڑے ڈیلٹا میں شامل ہے جوکہ سندھ کی تقریباً پوری ساحلی پٹی پر محیط ہے۔

ان وسائل کے باوجود پاکستان میں سمندر سے معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میں بِلیو اکانومی یا سمندری معیشت پر بہت زیادہ کام نہیں ہوا ہے۔ بِلیو اکانومی کے حوالے سے پاکستان میں اس وقت ساحلی سیاحت 30 کروڑ ڈالر کی ہے جبکہ اس کا صلاحیت 4 ارب ڈالر سالانہ کی ہے۔ سمندری خوراک کی برآمدات 18 کروڑ 52 لاکھ ڈالر ہے جبکہ بحیرہ ہند میں پائی جانے والی سمندری حیات کو دیکھتے ہوئے پاکستان باآسانی اپنی کمائی 2 ارب ڈالر تک بڑھاسکتا ہے۔ پاکستان کے مینگروز کا دنیا میں ساحلی جنگلات میں چھٹا نمبر ہے جس کی مالیت 20 ارب ڈالر ہے۔

جہاز رانی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو 1973ء کے بعد اس صنعت کو شدید نقصان ہوا۔ یہ صنعت قومیائے جانے کے بعد دوبارہ مستحکم نہ ہوسکی۔ پاکستان میں 1970ء میں شپ بریکنگ کی صعنت قائم ہوئی اور عالمی حالات کی وجہ سے شپ بریکنگ کی صنعت میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔ ایک وقت میں پاکستان اس صنعت میں سب سے آگے تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش اور بھارت آگے نکل گئے ہیں۔

پاکستان کے سمندر صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ وسط ایشیائی ملکوں افغانستان اور چین کے مغربی حصوں کے لیے کراچی اور گوادر میں قریب ترین بندرگاہیں فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان کی بندر گاہیں تمام موسمی حالات میں دستیاب رہتی ہیں جبکہ اس وقت وسط ایشیائی ریاستیں روسی بندرگاہوں کو استعمال کررہی ہیں جوکہ سردیوں میں برف کی وجہ سے چند ماہ کے لیے غیر فعال ہوسکتی ہیں۔ پاکستان چین اقتصادی راہدری یعنی سی پیک پاکستان کے بِلیو اکانومی سے فائدہ اٹھانے کا مظہر ہے۔ اگر بھارت خطے میں حالات کو بہتر کرے تو کراچی کی بندرگاہ بھارت کے بعض شہروں جیسا کہ دہلی اور امرتسر کے لیے ممبئی کے مقابلے میں قریب ترین بندرگاہ ثابت ہوگی اور تقریباً 400 کلومیٹر فاصلے کی بچت ہوسکے گی۔

حکومت اور کاروباری شعبے کی جانب سے بِلیو اکانومی پر توجہ نہ دیے جانے کے بعد اس کے فروغ کے لیے پاکستان نیوی نے یہ کام از خود اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ سال 2018ء میں امیر البحر ظفر محمود عباسی نے بِلیو اکانومی کے حوالے سے اپنا مقدمہ حکومت اور کاروباری کمیونٹی کے سامنے پیش کیا۔

پاکستان نیوی کا کہنا ہے کہ پاکستان بِلیو اکانومی کو فروغ دے کر اپنا جی ڈی پی دگنا کرسکتا ہے۔ بِلیو اکانومی سے معیشت کو چلانے کی بہترین مثال متحدہ عرب امارات ہے جس نے اپنی بڑی بندرگاہیں بنائی ہیں۔ اب بڑے بحری جہاز پاکستان کے سامنے سے گزر کر پہلے متحدہ عرب امارات کی بندگارہوں پر جاتے ہیں اور پاکستان جانے والا سامان اتارتے اور دیگر ملکوں کے لیے پاکستان سے آیا سامان لوڈ کرکے واپس چلے جاتے ہیں۔ اس کے بعد فیڈر بحری جہاز یعنی کم حجم والے بحری جہاز یہ سامان یو اے ای سے پاکستان پہنچاتے ہیں۔ اس سے برآمدی اور درآمدی سامان کی ترسیل میں 15 دن اضافی لگنے کے ساتھ ساتھ اخراجات بھی بڑھتے ہیں۔ پاکستان بِلیو اکانومی کو فروغ دے کر ان بحری جہازوں کو براہ راست اپنی بندرگاہوں پر لاسکتا ہے۔

پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپواینڈ کانفرنس سمندری معیشت کے حوالے سے پاکستان میں ہونے والی پہلی نمائش ہوگی۔ ایکسپو سینٹر کراچی کے 5 ہالز میں 139 کمپنیاں سمندری معیشت کے آلات اور خدمات کی نمائش کریں گی جس میں 118 پاکستانی اور 21 غیر ملکی کمپنیاں شامل ہیں۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ اس پہلی بِلیو اکانومی کانفرنس میں 50 ملکوں کے 122 مندوبین شریک ہوں گے۔ اس نمائش میں سب بڑا انکلوژر ترکی اور پھر امریکا کا ہے جوکہ اپنی بحریہ کے حربی آلات کے ساتھ ساتھ بِلیو اکانومی سے متعلق آلات اور خدمات کی نمائش کررہے ہیں۔

پاکستان کو اپنی بڑی ساحلی پٹی اور سمندری اثاثوں اور کانٹینینٹل شیلف کی حفاظت کے علاوہ ایندھن کی سب سے مصروف آبی گزر گاہ کی حفاظت کے لیے ایک جدید بحریہ درکار ہے۔ اس نیوی کے ہوتے ہوئے اگر بِلیو اکانومی بھی فروغ پائے گی تو اس سے ملکی معیشت کے ایک نئے شعبے کو ترقی دینے میں مدد ملے گی۔ اس لیے میری ٹائم نمائش میں جنگی آلات کے علاوہ بندرگاہوں کے آپریشنز، جہاز رانی، جہاز سازی و مرمت، شپ ری سائیکنگ، شپ بریکنگ، ماہی گیری اور ایکوا کلچر، سمندر کی تہہ میں موجود وسائل کی تلاش، ساحلی تفریح، متبادل توانائی، تحفظ ماحولیات، میرین انجینیئرنگ، آلات اور ساحل پر ریئل اسٹیٹ کے حوالے سے متعدد کمپنیوں نے اسٹالز لگائے ہیں۔

بِلیو اکانومی میں بہت سے ایسے شعبہ جات ہیں جس کی ضرورت بحریہ اور نجی شعبے دونوں کو ہوتی ہے۔ پاکستان نیوی اگر میری ٹائم اور میرین انجینئرنگ کا ہر شعبہ خود قائم کرلے تو یہ قومی خزانے پر بوجھ ہوگا۔ اس کے 2 متبادل ہوسکتے ہیں، ایک یا تو نیوی یہ شعبے قائم کرے اور اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد یہ خدمات نجی شعبے کو فراہم کرے یا پھر نجی شعبہ ان خدمات کا انفرااسٹرکچر بنائے جس کو وقت پڑنے پر نیوی استعمال کرسکے۔

نیوی بہت سے ایسے آلات بھی اپنے استعمال کے لیے درآمد کرتی ہے جن کو پاکستان میں باآسانی بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ملکی نجی شعبے کے ساتھ تعاون اور اشتراک ضروری ہے۔ اس سے زرمبادلہ کی بچت بھی ہوگی اور مقامی صنعت کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ یعنی بِلیو اکانومی کو فروغ دینے سے پاکستان کا بحری دفاع مظبوط ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو بھی فائدہ ہوگا۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 8 اکتوبر 2024
کارٹون : 7 اکتوبر 2024