توہین الیکشن کمیشن: اسد عمر کا ’معذرت خواہانہ جواب‘ واپس لینے کا فیصلہ
سیکریٹری جنرل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اسد عمر نے توہین الیکشن کمیشن کیس میں الیکشن کمیشن سے معذرت کے ایک روز بعد اپنا جواب واپس لینے کا فیصلہ کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام میں اسد عمر نے کہا کہ میں اپنے بیان پر قائم ہوں کہ الیکشن کمیشن ایک پارٹی بن چکا ہے اور ایک غیر جانبدار ادارے کی طرح کام نہیں کر رہا۔
اسد عمر نے کہا کہ انہوں نے اپنی قانونی ٹیم کو ترمیم شدہ جواب جمع کرانے اور ابہام پیدا کرنے والے پیراگراف نکالنے کی ہدایت کی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ’میں نے کوئی معافی نہیں مانگی، جواب نامے میں میرے وکلا نے جو بھی قانونی زبان استعمال کی، میں الیکشن کمیشن کے بارے میں اپنے الفاظ پر قائم ہوں کہ یہ واضح طور پر ایک پارٹی ہے اور غیر جانبدار آئینی ادارے کے طور پر کام نہیں کر رہا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں پہلے ہی دلائل کے ساتھ واضح کرچکا ہوں کہ غیر ملکی فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ حقائق کے منافی اور قانون کے خلاف ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں کہ وہ کسی پر توہین کا مقدمہ چلائیں، آئین کا آرٹیکل 204 صرف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کو اختیارات دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حنیف عباسی کیس میں واضح کر دیا تھا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے، میں الیکشن کمیشن کی جانبداری کے حوالے سے اپنے بیان پر قائم ہوں۔
واضح رہے کہ اسد عمر نے الیکشن کمیشن کو جمع کروائے گئے جواب میں لکھا تھا کہ الیکشن کمیشن کے توہین عدالت کے اختیارات سے متعلق 2017 کے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 10 کو پہلے ہی چیلنج کیا جا چکا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کوئی عدالت یا کوئی ٹریبونل نہیں ہے، اسے توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔
انہوں نے لکھا تھا کہ یہ بات کافی حد تک واضح نظر آرہی تھی کہ الیکشن کمیشن کی توجہ صرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 4 اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال پر مرکوز تھی جبکہ الیکشن کمیشن نے دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا حالانکہ دوسری سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس میں اس سے کہیں زیادہ سنگین بے ضابطگیاں تھیں، لہٰذا میں نے اپنے جائز تبصروں کا اظہار کیا جو میرا بنیادی حق ہے۔
انہوں نے لکھا کہ لہٰذا ان تبصروں میں کسی بھی بات کو توہین آمیز نہیں کہا جاسکتا، وہ تبصرے حقائق پر مبنی تھے جو جائز تنقید کے لیے عوامی سطح پر کیے گئے تھے۔
اسد عمر نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 2 اگست 2022 کو فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری ہوتے ہی پورے میڈیا نے پی ٹی آئی کے خلاف مہم شروع کردی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی نے اس یکطرفہ رپورٹ پر شدید ردعمل کا اظہار کیا، پی ٹی آئی کے سیکریٹری کی حیثیت سے یہ میرا فرض تھا کہ رپورٹ میں موجود غلطیوں اور غیر قانونی چیزوں کی نشاندہی کروں جس کی قانون میں اجازت ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے لکھا تھا کہ اس طرح کی متعصبانہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پر میں نے منصفانہ تنقید کی تھی کہ ابتدا میں یہ صرف ایک گمان تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے متعصبانہ رویہ اپنایا جارہا ہے لیکن ان کی جانبدارانہ ’فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ‘ کے بعد یہ گمان یقین میں بدل گیا، الیکشن کمیشن پی پی ٹی آئی کو نشانہ بنانے، اسے بطور پارٹی تحلیل کرنے یا پارٹی سربراہ کو نااہلی کی جانب دھکیلنے کے ایجنڈے پر کام کر رہا تھا حالانکہ ایسا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا۔
انہوں نے لکھا تھا کہ میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ میں نے کوئی غیر منصفانہ، بے بنیاد یا الیکشن کمیشن کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور درحقیقت یہ تبصرے اس لیے کیے ہیں تاکہ الیکشن کمیشن پر اعتماد بحال کیا جاسکے۔
اپنے جواب کے اختتام پر اسد عمر نے کہا تھا کہ اس تناظر میں الیکشن کمیشن کی جانب سے میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائیوں کا آغاز مکمل طور پر دائرہ اختیار سے باہر، بے بنیاد اور آرٹیکل 9، 10 اے، 19، 175 اور 204 کی خلاف ورزی ہے، اس لیے مذکورہ وجوہات کی بنا پر اسے برخاست کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس کے باوجود اگر الیکشن کمیشن محسوس کرتا ہے کہ یہ بیانات اس نوعیت کے ہیں جو توہین کے مترادف ہیں میں اپنے آپ کو الیکشن کمیشن کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں، مجھے اپنی جانب سے دیے گئے بیانات پر افسوس ہے لہٰذا میری معافی قبول کی جائے اور توہین الیکشن کمیشن کی کارروائی ختم کی جائے۔