• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

الیکشن کمیشن اپنے کام کے سوا باقی سارے کام کر رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن

شائع February 16, 2023
سپریم کورٹ نے الیکشن کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرلی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے الیکشن کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرلی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ

سی سی پی او لاہور تبادلہ کیس کی سماعت میں جسٹس اعجاز الاحسن نے انتخابات کے تناظر میں ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن اپنے کام کے سوا باقی سارے کام کر رہا ہے اور الیکشن میں حائل رکاوٹوں پر تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگر کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالت کے طلب کرنے پر سماعت کے دوسرے حصے میں چیف الیکشن کمشنر بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز میں جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا اس کے باوجود سی سی پی او کو تبدیل کیوں کیا گیا؟ غلام محمود ڈوگر کا تبادلہ کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟

پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ غلام محمود ڈوگر کا دوسری مرتبہ تبادلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اجازت سے کیا گیا۔

عدالت نے کہا کہ افسران کی تبدیلی میں الیکشن کمیشن کا کیا کردار ہے، کمیشن کا کردار انتخابات کے اعلان ہونے کے بعد ہوتا ہے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ صوبے میں نگراں حکومت آنے کی وجہ سے الیکشن کمیشن سے اجازت لی گئی۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے مطابق نگراں حکومت آنے کے بعد 90 دنوں میں انتخابات ہونا ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن سے دریافت کیا کہ تو پھر بتائیں الیکشن کہاں ہے؟

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آدھے پنجاب کو ٹرانسفر کردیا گیا، کیا پنجاب میں ایسا کوئی ضلع ہے جہاں کسی کا تبادلہ نہ ہوا ہو۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید ریمارکس دیے کہ کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم کا علم نہیں تھا؟ الیکشن کمیشن اپنے کام کے سوا باقی سارے کام کر رہا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے چیف الیکشن کمشنر کو طلب کر کے سماعت میں مختصر وقفہ کردیا تھا۔

آئینی تقاضے پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے، چیف الیکشن کمشنر

وقفے کے بعد ہونے والی سماعت میں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین ہر صورت 90 دن میں انتخابات کرانے کا پابند کرتا ہے اور انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مقررہ وقت میں انتخابات نہ ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی، 90 دن میں انتخابات کے حوالے سے آئین میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ شفاف انتخابات کرانا صرف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ نگراں حکومت تقرر و تبادلے نہیں کر سکتی، نگراں حکومت کو (کسی افسر کا) تبادلہ مقصود ہو تو ٹھوس وجوہات کے ساتھ درخواست دے گی، جس کے بعد الیکشن کمیشن وجوہات کا جائزہ لے کر مناسب حکم جاری کرنے کا پابند ہے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے کہا کہ عدالت حکم دے تو تبادلے روک دیں گے۔

عدالت میں بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کی تاریخ خود دیں گے تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی، مجھے اپنے اختیارات اور آئینی تقاضے پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے مزید کہا کہ فوج سے سیکیورٹی مانگی تو انکار کردیا گیا، عدلیہ سے آر اوز مانگے تو انہوں نے انکار کردیا، انتخابات کے لیے پیسہ مانگا تو اس سے بھی انکار کردیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب اختیارات ہی محدود کر دیے گئے ہیں تو صاف و شفاف انتخابات کیسے کرائیں؟

اٹارنی جنرل نے کیس لاہورہائی کورٹ میں زیرالتوا ہونے اور فیصلے کا انتظار کرنے کا مؤقف اپنایا۔

جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تبادلہ کیا گیا غلام محمود ڈوگر کا الیکشن کمیشن کےکہنے پر ہی تبادلہ ہوا، ایسے پیش نہیں ہوتے تو نوٹس دیے کر بھی طلب بھی کرسکتے ہیں، کیا زبانی احکامات پر تبادلے کی بات درست ہے؟

چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ چیف سیکریٹری نے23 جنوری کو فون کر کے تبادلہ کرنے کا کہا، تاہم تحریری درخواست پر 6 فروری کوباضابطہ اجازت نامہ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جو ریکارڈ ملا اس میں سپریم کورٹ کے احکامات کا ذکر نہیں تھا تبادلوں سے متعلق صوبائی حکومتوں کو گائیڈ لائنز جاری کی ہیں۔

بینچ نے سیکریٹری الیکشن کمیشن کی بھی سرزنش کی۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ انتحابات کے لیے تیار ہیں اور اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ سے دوبارہ رجوع کررہے ہیں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے الیکشن کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے متعلق تفصیلی رپورٹ اور متعلقہ ریکارڈ سمیت چیف الیکشن کمشنر کو کل (جمعہ کو) دوبارہ پیش ہونے کا حکم دیا اور سماعت ملتوی کردی۔

غلام محمود ڈوگر تبادلہ کیس

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے 5 نومبر کو سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو عمران خان پر قاتلانہ حملے کے خلاف پی ٹی آئی کارکنان کے احتجاج کے دوران گورنر ہاؤس کی سیکیورٹی یقینی نہ بنانے پر معطل کردیا تھا۔

اس پر گورنر ہاؤس کے عہدیداروں نے چیف سیکریٹری اور آئی جی پی کو خط لکھا تھاجس کے بعد فیڈرل سروس ٹریبونل اسلام آباد نے غلام محمود ڈوگر کو لاہور کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) کے عہدے پر برقرار رہنے کی اجازت دی تھی، تاہم دو رکنی بینچ نے انہیں معطل کرنے کا حکم جاری کردیا تھا۔

سروس ٹریبونل اسلام آباد کے فیصلے کے خلاف غلام محمود ڈوگر نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی تھی، جس میں کہا گیا کہ ایک ہجوم نے دی مال کا مین گیٹ توڑنے کی کوشش کی، ٹائر جلائے، سی سی ٹی وی کیمروں کو نقصان پہنچایا اور احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

خط میں مظاہرین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کیپیٹل سٹی پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا اور نہ ہی حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کیا۔

چنانچہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک نوٹی فکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا کہ مزید احکامات جاری ہونے تک غلام محمد ڈوگر کی معطلی پر فوری طور پر عمل درآمد ہوگا۔

بعد ازاں غلام محمود ڈوگر نے لاہور ہائی کورٹ میں اپنی معطلی کے خلاف درخواست دائر کی تھی تاہم عدالت عالیہ نے ان کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردی تھی۔

اس کے بعد فیڈرل سروس ٹریبونل اسلام آباد نے غلام محمود ڈوگر کو لاہور کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) کے عہدے پر برقرار رہنے کی اجازت دی تھی، تاہم دو رکنی بینچ نے انہیں معطل کرنے کا حکم جاری کردیا تھا۔

سروس ٹریبونل اسلام آباد کے فیصلے کے خلاف غلام محمود ڈوگر نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024