• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

جسٹس (ر) ملک قیوم 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے

شائع February 17, 2023
جسٹس (ر) ملک قیوم کو لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں انہیں سپردخاک کیا جائے گا — فائل فوٹو: ٹوئٹر
جسٹس (ر) ملک قیوم کو لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں انہیں سپردخاک کیا جائے گا — فائل فوٹو: ٹوئٹر

سابق اٹارنی جنرل پاکستان جسٹس (ر) ملک محمد قیوم 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔

اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ سے جاری ایک اعلامیے میں بتایا گیا کہ ان کی نمازِ جنازہ آج بروز جمعہ دوپہر ڈیڑھ بجے فیروز پور روڈ کے مسلم ٹاؤن موڑ پر جامعہ اشرفیہ میں ادا کی گئی۔

بعد ازاں لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں انہیں سپردخاک کر دیا گیا۔

جسٹس (ر) ملک محمد قیوم 90 کی دہائی میں پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ کے تہلکہ خیز رازوں سے پردہ اٹھانے کے حوالے سے معروف تھے۔

ان کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیشن نے 150 صفحات کی ایک دستاویز تیار کی تھی جو پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ کی تحقیقات کے لیے اٹھایا گیا پہلا قدم تھا۔

سن 2000 میں جسٹس (ر) ملک محمد قیوم نے میچ فکسنگ کی تحقیقات کے بعد سلیم ملک کو سزا سنائی تھی کہ وہ پوری زندگی میں کسی بھی سطح پر کرکٹ کی کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے۔

جسٹس (ر) ملک محمد قیوم 18 دسمبر 1944 کو سپریم کورٹ کے سابق جج محمد اکرم کے ہاں پیدا ہوئے۔

ان کے والد جسٹس (ر) محمد اکرم لاہور ہائی کورٹ کے اس پانچ رکنی بینچ کے رکن تھے جس نے متفقہ فیصلے میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی تھی۔

ملک قیوم نے اپنے کیریئر کا آغاز 1964 میں بطور لیگل پریکٹیشنر کیا۔

1970 میں وہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن لاہور کے سیکریٹری منتخب ہوئے اور 10 سال بعد 1980 میں بار کے صدر بن گئے۔

وہ 88-1984 کی مدت کے لیے پنجاب بار کونسل کے رکن منتخب ہوئے اور فروری 1984 میں انہیں ڈپٹی اٹارنی جنرل مقرر کیا گیا، اس عہدے پر وہ 26 اکتوبر 1988 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج بننے تک فائز رہے۔

وہ ہائی کورٹ رولز اینڈ آرڈرز کمیٹی اور لائبریری کمیٹی کے چیئرمین کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر سیل کے ایڈمنسٹریشن جج بھی رہے جب یہ 1991 میں قائم کیا گیا تھا۔

جسٹس (ر) ملک قیوم کو لاہور ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے اس وقت استعفیٰ دینا پڑا جب 2001 میں سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف بدعنوانی کے مقدمے کی سماعت میں جسٹس راشد عزیز کے ساتھ مل کر انہیں ’جانبدار‘ قرار دیا تھا۔

اس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ میں پریکٹس شروع کردی اور 2005 میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔

وہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جلاوطنی سے پاکستان واپسی کے لیے عدالت عظمیٰ میں دائر کیس میں بھی وکیل تھے۔

ان کے بھائی محمد پرویز ملک مسلم لیگ (ن) سے وابستہ رکن قومی اسمبلی تھے۔

جسٹس (ر) ملک قیوم چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس میں حکومتی وکیل کے طور پر پیش ہوئے تھے اور کیس ہار گئے تھے۔

اظہارِ تعزیت

وزیراعظم شہباز شریف نے ریٹائرڈ جسٹس ملک محمد قیوم کی وفات پر رنج و غم اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے جسٹس (ر) ملک قیوم کے اہل خانہ سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم قانون کے شعبے میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔

وزیراعظم نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر دے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024