• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

’عدلیہ میں بھی بدعنوانی ہے جس کا براہ راست تعلق ججوں کی شمولیت کے عمل سے ہے‘

شائع February 20, 2023
جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ’پاکستان کی عدلیہ سے بڑھتی ہوئی توقعات‘ کے عنوان سے ایک پینل مباحثے کے دوران خطاب کیا— فوٹو: اظہر خان
جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ’پاکستان کی عدلیہ سے بڑھتی ہوئی توقعات‘ کے عنوان سے ایک پینل مباحثے کے دوران خطاب کیا— فوٹو: اظہر خان

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے کہا ہے کہ جب بدعنوانی کی بات آتی ہے تو عدلیہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے اور ریاست کے اس اہم ستون میں خامیوں کا ججوں کی تعیناتی کے عمل سے براہ راست تعلق ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ’پاکستان کی عدلیہ سے بڑھتی ہوئی توقعات‘ کے عنوان سے ایک پینل مباحثے کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی آزادی کے بعد سے ہی ہماری عدلیہ میں ججوں کی شمولیت مناسب انداز میں نہیں کی گئی، قیام پاکستان کے بعد ہم نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے وراثت میں ملنے کے فوراً بعد اقربا پروری، جانبداری اور میرٹ کو قربان کردیا۔

پینل میں معروف قانونی ماہر اور تجربہ کار وکیل حامد خان اور ایک اور ممتاز وکیل پلوشہ شہاب بھی شامل تھیں، سیشن کی نظامت کے فرائض فیصل صدیقی نے سرانجام دیے۔

سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس کی حیثیت سے بھی ذمے داریاں انجام دینے والے جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے کہا کہ کہا کہ کوئی ادارہ کرپشن سے پاک نہیں ہے، عدلیہ میں بھی بدعنوانی ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کس سطح پر ہے، ہمارے پاس بدنام زمانہ ممبران تھے، میں ان کا نام لے سکتا ہوں لیکن یہ ذاتیات پر حملہ ہوگا، اس لیے مجھے مزید تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اداروں کے درمیان تصادم کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت پنپنے سے قاصر رہی۔

سابق جج نے کہا کہ کچھ لوگ جمہوریت کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بدقسمتی سے سیاستدانوں ہمارے ہاں آسان ہدف رہے ہیں جبکہ میڈیا بھی متاثرین کی فہرست میں شامل ہے، اس طرح کی مثالیں غیر جمہوری قوتوں کے لیے اتحاد کی راہ ہموار کرتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی جانب سے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کی مثالیں موجود ہیں، اسی طرح عدلیہ میں بھی خامیاں ہیں اور اس کا براہ راست تعلق عدلیہ میں ججوں کی شمولیت سے ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ’غیر جمہوری لوگوں‘ کو کبھی سزا نہیں دی گئی لیکن خوش آئند امر یہ ہے کہ اب ماحول بدل رہا ہے۔

جب ان سے عدلیہ میں بیرونی عناصر کے اثرورسوخ کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے محتاط انداز اپناتے ہوئے کہا کہ کوئی کسی پر دباؤ نہیں ڈال سکتا، اگر آپ مضبوط ہیں اور آپ کو خود پر یقین ہے تو کوئی بھی آپ پر دباؤ نہیں ڈال سکتا، آپ اس وقت تک پراعتماد نہیں ہو سکتے جب تک آپ خود مضبوط اور معاملہ فہمی کی بصیرت نہ رکھتے ہوں۔

انہوں نے ججوں کو اعلیٰ عدالتوں میں تعینات کرنے کے فیصلے کے حوالے سے قانونی برادری میں حالیہ اختلاف کے بارے میں بھی بات کی۔

سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ اکثریت اس عمل کے لیے قواعد کا مطالبہ کرتی ہے، طریقہ کار کے تعین کا مطالبہ کرتی ہے، عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ججوں کی شمولیت کا طریقہ کار اقربا پروری پر مبنی ہے، اگر شمولیت کا عمل بدعنوانی سے بھرا ہوا ہے تو مسائل سامنے آئیں گے کیونکہ یہ بدعنوانی صرف مالی نہیں بلکہ اخلاقی، سماجی اور سیاسی بھی ہے۔

’عدلیہ کو آزاد ادارے کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا‘

دریں اثنا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان نے کہا کہ عدلیہ کو ایک آزاد ادارے کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا اور اس صورتحال کے لیے پارلیمنٹ کی کمزوری بھی یکساں ذمے دار ہے۔

انہوں نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ نے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ریٹائرڈ قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا ازخود نوٹس لینے کے لیے اپنے اختیارات استعمال کیے تھے، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے غیر معمولی اتحاد کا مظاہرہ کیا اور فیصلے کو ایک قانون کے ذریعے قانونی کور دیا گیا اور بعد میں اس معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے مزید چھ ماہ کا وقت دیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس تمام صورتحال میں ججز کے احتساب کا عمل غائب نظر آتا ہے، پہلے، ججوں کے پاس طاقت نہیں تھی کیونکہ صدر سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ ریفرنسز بھیج دیں گے، یہ بھی خیال کیا گیا کہ صدر کرپٹ جج کے خلاف ریفرنس نہیں بھیجیں گے کیونکہ آخر کار حکومت ہی ان فیصلوں سے استفادہ کرتی ہے جو ان کے حق میں ہوتے ہیں۔

انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو غیر موثر ادارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے پچھلے 15 یا 20 سالوں سے اسے از خود نوٹس لیتے ہوئے نہیں دیکھا، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل میں عدم شفافیت عروج پر ہے۔

’عدلیہ میں صنفی عدم توازن کو دور کرنے کی ضرورت ہے‘

اس موقع پر وکیل پلوشہ شہاب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انصف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے آزاد عدلیہ کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ اگر عدلیہ مکمل طور پر یا بنیادی طور پر مردوں کی بالادستی کی حامل ہو گی تو انصاف کی فراہمی پر اثر پڑے گا۔

ان کا ماننا تھا کہ اگر عدلیہ پرتشدد مردانہ بالادستی کی عوامی وجوہات کا نوٹس نہیں لے سکتی ہے، تو وہ قانونی حیثیت کا دعویٰ نہیں کر سکتی اور نہ ہی یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ وہ اپنا کام کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس عائشہ ملک کی تقرری پر شور مچ گیا لیکن ان کی نامزدگی پر جس طرح کا رد عمل سامنے آیا، یہ پاکستان میں ایک پرانا طرز عمل ہے۔

انہوں نے 23مرد اراکین پر مشتمل پاکستان بار کونسل میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے پر بھی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم واقعی نظام کو ہموار نہیں کرتے، ہمیں مساوات اور انصاف کو یقینی بنانے میں جدوجہد کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024