• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
پی ٹی آئی چیئرمین زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ پر کارکنان کے ہمراہ—تصویر: پی ٹی آئی
عمران خان کی جانب سے دی گئی کال نے بظاہر ان کے حامیوں کو نئی قوت بخشی—تصویر: اے ایف پی

عمران خان کی گرفتاری : لاہور ہائیکورٹ کا کل صبح 10 بجے تک زمان پارک میں پولیس آپریشن روکنے کا حکم

پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں وارنٹ کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے جب تک فیصلہ نہیں آجاتا، آپریشن روک دیتے ہیں، عدالت کے ریمارکس

لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے لیے زمان پارک میں 2 روز سے جاری پولیس آپریشن کو کل صبح 10 بجے تک روکنے کا حکم دے دیا۔

قبل ازیں نگران حکومت پنجاب نے کہا کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے میچز کی وجہ سے لاہور میں سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک سے سیکیورٹی فورسز کو ہٹاتے ہوئے عارضی طور پر عدالتی حکم پر عمل در آمد کے لیے جاری کارروائی کو روک دیا گیا ہے۔

زمان پارک میں پولیس آپریشن روکنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں دائر فواد چوہدری کی درخواست پر سماعت ہوئی، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل عدالت میں پیش ہوئے، وکیل عمران خان نے کہا کہ میں عمران خان کا دفاع نہیں کر رہا لیکن جو زمان پارک کے باہر ہو رہا ہے، وہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ جیسا فلموں میں دیکھا ویسا وار زون بن چکا ہے، اکیس گھنٹے سے زمان پارک کے باہر پولیس لگی ہے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، یہ درخواست لاہور ہائی کورٹ میں قابل سماعت نہیں ہے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میرے سامنے چار پٹیشنز ہیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد سے کون پولیس افسر لاہور آیا ہے، وفاقی حکومت کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ یہ چیک کرنا پڑے گا، عدالت نے کہا کہ جو بھی اسلام آباد پولیس کی طرف سے آپریشن کی سربراہی کر رہا ہے ہم اسے بلا لیتے ہیں، وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی نمائندگی ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کرتے ہیں۔


اب تک ہونے والی پیش رفت
  • لاہور ہائیکورٹ کا کل صبح 10 بجے تک زمان پارک میں پولیس آپریشن روکنے کا حکم
  • نگران حکومت نے پی ایس ایل میچ کی وجہ سے عارضی طور پر عدالتی حکم پر عملدرآمد روک دیا
  • زمان پارک میں موجود پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس کے درمیان مسلسل دوسرے روز جھڑپیں جاری
  • عمران خان کا گرفتاری کے پیچھے اغوا اور قتل کے ارادے کا دعویٰ
  • اسلام آباد میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت
  • پولیس کی بدھ کی صبح چیئرمین ٌپی ٹی آئی کو گرفتار کرنے کی ایک اور کوشش
  • لاہور ہائیکورٹ میں عمران خان کے خلاف 4 مقدمات، زمان پارک آپریشن روکنے کی درخواست دائر
  • پی ٹی آئی کارکنان کے ساتھ جھڑپ میں 58 پولیس اہلکار زخمی

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ اس معاملے کو کسی طرح ٹھیک بھی تو کرنا ہے، وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد پولیس لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی، عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر اسلام آباد پولیس کے افسر عدالت میں پیش نہ ہوئے تو ہم ان کے وارنٹ جاری کریں گے۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد آپریشن کی قیادت کر رہے تھے، اپنی ہی آنسو گیس سے زخمی ہوئے، اس دوران لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری پنجاب، اسلام آباد پولیس کی طرف سے آپریشن کی سربراہی کرنے والے افسر کو عدالت میں طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ تین بجے تمام افسر عدالت میں پیش ہوں۔

وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد کے پولیس افسر سے رابطہ نہیں ہو سکا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے، وکیل عمران خان نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں وارنٹ گرفتاری کا معاملہ چیلنج ہوا ہے۔

عدالت نے آئی جی سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں مسئلے کا حل کیا ہے، آئی جی نے کہا کہ ہم الیکشن کی میٹنگ میں تھے باہر نکلے تو پتا چلا کہ اسلام آباد پولیس لاہور میں ہے، اسلام آباد پولیس نے معاونت مانگی اور ہمیں وارنٹ دکھائے، ہمارے چودہ پولیس اہلکار زخمی ہوئی پھر تین سو اہلکار مزید بھیجے گئے، ڈنڈوں سوٹوں سے پولیس پر حملہ کیا گیا 59 مزید اہلکار زخمی ہوئے۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ کوئی اہلکار یا افسر اسلحہ لے کر نہیں جائے گا، ہم نے واٹر کینن اور آنسو گیس سے حالات پر قابو پایا، دوسری طرف سے پٹرول بم آنا شروع ہوئے جس سے ہماری دو گاڑیاں تباہ ہوئیں، ایلیٹ فورس کی گاڑی پر حملہ کیا گیا، پی ایس ایل کی ٹیمیں یہاں ٹھہری ہوئی ہیں، اس کے بعد رینجر کو طلب کیا گیا اس پر حملہ کیا گیا، اسلام آباد پولیس افسران پر بھی حملہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ایس پی عمارہ شیرازی پر تشدد کیا گیا، ہم نے صرف پولیس پر حملہ کرنے والوں کو پکڑا ہے ہم نے کوئی آپریشن نہیں کیا، ہم تو عدالت کے حکم پر عملدرآمد کرا رہے ہیں، سرکار کی جو املاک نظر آتی ہے اسے آگ لگائی جا رہی ہے، اب وکلا نے ریلی نکالی اور پھر تصادم ہو گیا، ہم نے پولیس پر تشدد کرنے والے اور کار سرکار میں مداخلت کرنے والے افسران کو پکڑنا ہے، اس سارے معاملے میں فائرنگ کا خدشہ تھا۔

چیف سیکریٹری نے کہا کہ لوگوں کا بہت نقصان ہوا ہے، ساری بات آئی جی پنجاب نے بتا دی ہے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں وارنٹ کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے جب تک فیصلہ نہیں آجاتا ہم آپریشن روک دیتے ہیں، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میں لاہور میں امن چاہتا ہوں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم وہ پارٹی ہیں جو قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، میں ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد کے پاس گیا تاکہ وارنٹ دیکھ کے کوئی حل نکال سکوں، انہوں نے پیچھے سے آنسو گیس کا استعمال شروع کر دیا، پولیس نے سیز فائر کا وعدہ کیا لیکن پولیس نے عمران خان کے گھر کے اندر شیلنگ کی، میرے خیال سے پولیس کوئی سانحہ چاہتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کےبعد کل صبح 10 بجے تک زمان پارک میں پولیس آپریشن روکنے کا حکم دے دیا۔

نگران حکومت پنجاب کا عارضی طور پر عدالتی حکم پر عمل روکنے کا فیصلہ

نگران وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر نے کہا کہ پی ایس ایل کے پیش نظر عارضی طور پر عدالتی حکم پر عمل روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کارروائی عارضی طور پر روکی گئی ہے اور اب یہ کارروائی 19 مارچ کو ہونے والے پی ایس ایل کے فائنل کے بعد کرنی ہے یا اس سے قبل، اس کا فیصلہ ابھی نہیں کیا گیا، اس بات کا فیصلہ ابھی کیا جانا ہے۔

نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم صرف عدالتی حکم پر عمل در آمد کر وا رہے ہیں، اگر عدالت ان کے وارنٹ معطل کرتی ہے تو معاملہ ختم ہوجائےگا، یہ معاملہ اسی طرح سے شروع ہوا تھا کہ عدالت نے انہیں طلب کیا تو انہوں نے پیش ہونے کے بجائے ریلی نکالی۔

عامر میر نے کہا کہ عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ مجھے سیکیورٹی خطرات ہیں اور میں زخمی بھی ہوں، اس لیے عدالت میں پیش نہیں ہوسکتا، لیکن جب انہوں نے ریلی نکالی تو ان کا یہ استدلال ختم ہوگیا اور کورٹ نے حکم دیا کہ ان کو گرفتار کرکے پیش کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج لاہور میں پاکستان سپر لیگ کا میچ ہے، دن کے اوقات میں ٹیموں نے اسٹیڈیم جانا ہوتا ہے، اس لیے راستوں کو کلیئر کرایا جارہا ہے۔

نگراں وزیر اطلاعات پنجاب نے کہا کہ اتوار کے روز پی ٹی آئی کو لاہور میں جلسہ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ اس روز پی ایس ایل کا فائنل کھیلا جانا ہے۔

قبل ازیں آج صبح اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے 11:48 بجے پوسٹ کی گئی ایک ٹوئٹ میں پی ٹی آئی نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ’رینجرز اور پولیس کی جانب سے کھلے عام فائرنگ‘ کا الزام لگایا گیا، یہ بتائے بغیر کہ یہ ویڈیو کب ریکارڈ کی گئی تھی۔

ٹوئٹ میں مزید کہا گیا کہ زمان پارک ’شدید حملے‘ کی زد میں ہے، سب فوری طور پر پہنچیں۔ ڈان ڈاٹ کام کی جانب سے اس فوٹیج کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جاسکی اور اس بات کا بھی پتا نہیں چل سکا کہ کیا یہ آج کی ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں نے توشہ خانہ کیس کے سلسلے میں سابق وزیر اعظم کو آج علی الصبح گرفتار کرنے کی تازہ کوشش کی لیکن انہیں پی ٹی آئی کے حامیوں نے ناکام بنا دیا اور سیکیورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ کیا۔

ٹیلی ویژن پر چلنے والی فوٹیج میں زمان پارک کے باہر پی ٹی آئی کے کارکنوں کو موٹر سائیکلوں اور دیگر گاڑیوں کو آگ لگاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔

پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں عمران خان کو گیس ماسک پہن کر زمان پارک میں پارٹی کے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ساتھ ہی پارٹی کی جانب سے بار بار کارکنان کو زمان پارک میں جمع ہونے کی کالز دی جارہی ہیں۔

قبل ازیں عمران خان نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ’گرفتاری‘ کا دعویٰ محض ایک ڈرامہ تھاجبکہ اصل نیت اغوا اور قتل کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آنسو گیس اور واٹر کینن کے بعد اب یہ سیدھی فائرنگ پر اتر آئے ہیں، کل شام میں نے ضمانتی بانڈ بھی فراہم کیے لیکن ڈی آئی جی نے وصول تک کرنے سے انکار کردیا، ان کی بدنیتی اور ناپاک عزائم میں کسی قسم کا ابہام باقی نہیں۔

ایک اور ٹوئٹ میں عمران خان نے کہا کہ پورا دن آنسو گیس، کیمیکل ملے پانی والی واٹر کینن، ربر کی گولیوں اور زندہ گولیوں کا سامنا کرنے کے بعد اب رینجرز نے پوزیشن سنبھال کر عوام کے ساتھ براہِ راست ٹکراؤ پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا اسٹیبلشمنٹ سے سوال ہے کہ وہ جو اپنے آپ کو نیوٹرل کہتے ہیں، یہ ہے آپ کی ’غیر جانبداری‘، رینجرز براہ راست سب سے بڑی پارٹی کے غیر مسلح مظاہرین اور رہنماوں کے ساتھ محاذ آرائی کر رہی ہے جبکہ ان کے رہنما کو ایک غیر قانونی وارنٹ کا سامنا ہے، کیس عدالت میں چل رہا ہے اور حکومت اسے اغوا اور ممکنہ طور پر قتل کرنا چاہتی ہے۔

عمران خان نے منگل کی رات گئے اپنے حامیوں سے بھی خطاب کیا اور کہا کہ ان کی گرفتاری کی مزید کوشش جاری ہیں۔

ایک ویڈیو پیغام میں بات کرتے ہوئے عمران نے دن میں ہونے والے واقعات کو بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کی صورتحال سے تشبیہ دی۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے جس طرح ہمارے لوگوں پر حملہ کیا، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، بہت کم لوگوں پر اس طرح حملہ کرنے کی کیا وجہ ہے؟

پی ایس ایل میچ شیڈول کے مطابق ہوگا

پاکستان سپر لیگ کے سیزن 8 کا کوالیفائر میچ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں شیڈول کے مطابق کھیلا جائے گا۔

حکومت پنجاب کے ترجمان کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ حکومت نے انٹرنیشنل ایونٹ پی ایس ایل کا میچ کو آج ہر صورت کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

شرپسندوں کےخلاف سخت کارروائی کا فیصلہ

بیان میں کہا گیا کہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے اس میں حائل کسی بھی رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے اور عدالتی احکامات پر بھی سختی سے عملدرآمد کرانے کا حکم دیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ شرپسند بدستور نہتے پولیس والوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور درجن سے زائد گاڑیوں اور موٹرسائیکل کو جلا چکے ہیں۔

ساتھ ہی بتایا گیا کہ پولیس پر تشدد کرنے والوں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

58 پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیں، حکومت پنجاب

دوسری جانب پنجاب کے نگراں وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم نے بتایا ہے کہ زمان پارک کے باہر کارروائی میں اب تک 58 پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیں۔

ایک ٹوئٹر پیغام میں بتایا گیا کہ زخمی ہونے والے 48 پولیس اہلکاروں کو موقع پر ہی ابتدائی طبی امداد دی گئی جبکہ دیگر کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔

علاوہ ازیں ڈان نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے پنجاب کے انسپکٹر جنرل عثمان انور نے کہا کہ کل سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ جھڑپوں میں 54 پولیس اہلکار ’شدید زخمی‘ ہوئے ہیں جب کہ 32 اہلکاروں کو ریسکیو 1122 نے ابتدائی طبی امداد دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زمان پارک کی رہائش گاہ کے باہر کوئی ’آپریشن‘ نہیں ہو رہا اور پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیاں بھی جلا دی گئیں۔

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ جہاں تک آنسو گیس اور واٹر کینن کا تعلق ہے، ہم انہیں استعمال کر رہے ہیں تاکہ گرفتاری کے وارنٹ پر عمل ہو سکے، قانون سب کے لیے یکساں ہے۔

آئی جی نے واضح کیا کہ زمان پارک کے قریب سڑکوں کے علاوہ لاہور کی تمام سڑکیں ٹریفک کے لیے کھلی ہیں اور شہر کے تعلیمی اداروں کا بھی یہی حال ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں حفاظتی ضمانت کی درخواست

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی کی جانب سے زمان پارک سے لاہور ہائی کورٹ آنے کی اجازت دینے کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالت نے عمران خان کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔

لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ عمران خان حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ آنا چاہتے ہیں لیکن پولیس نے زمان پارک چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ پولیس کسی بھی شخص کو زمان پارک آنے یا جانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے اور زمان پارک کے باہر موجود کارکنوں پر تشدد کر رہی ہے۔

عدالت سے استدعا کی گئی کہ عدالت عمران خان کو زمان پارک سے ہائی کورٹ تک آنے کی اجازت دے۔

علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی 4 مقدمات میں حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کردی گئی ہے۔

عمران خان نے اپنے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی وساطت سے اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں 2 اور ریس کورس تھانہ میں درج 2 دیگر مقدمات میں حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کی۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ عمران خان متعلقہ عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں حفاظتی ضمانت منظور کی جائے۔

اس کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ میں دائر ایک علیحدہ درخواست میں تحریک انصاف نے زمان پارک میں پولیس آپریشن کو روکنے کی استدعا کردی۔

مذکورہ درخواست فواد چوہدری کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی، جس میں حکومت پنجاب، سی سی پی او سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے آپریشن روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔

عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ سے امید ہے کہ تماشا ختم کرائیں گے، عمران خان

قبل ازیں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے کہا کہ زمان پارک میں میری رہائش گاہ پر اس وقت بھی شیلنگ جاری ہے، میں نے کون سا اتنا بڑا جرم کیا تھا جو میرے گھر پر حملہ کیا گیا؟

عمران خان نے اپنی رہائش گاہ سے پی ٹی آئی کے آفیشل یوٹیوب چینل کے ذریعے ویڈیو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ میز پر رکھے ہوئے تمام شیلز کل شام سے زمان پارک پر میرے گھر کے اندر پھینکے گئے ہیں، گھر کے باہر بھی سڑکوں پر ان گنت شیلز بکھرے پڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ابھی اس وقت میں آپ سے بات کررہا ہوں اور دوبارہ شیلنگ شروع ہوگئی ہے، دوبارہ حملہ کردیا گیا ہے، میں نے کون سا اتنا بڑا جرم کیا تھا جو میرے گھر پر حملہ کیا گیا؟

ان کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ کیس مجھ پر محض ایک الزام ہے، اب توشہ خانہ کا ریکارڈ سب کے سامنے آچکا ہے، اب سب کو پتا چلے گا کہ ان لوگوں نے توشہ خانہ سے چوریاں کی ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ توشہ خانہ کا کیس ایف-8 کی کچہری میں لگا ہوا ہے جہاں 2 بار بم دھماکے ہوچکے ہیں، وہاں وکیل اور ججز بھی شہید ہوچکے ہیں، مجھ پر ایک حملہ ہوچکا ہے جس کے پیچھے شہباز شریف اور ایجنسیز کے ایک آدمی کا ہاتھ تھا، ان سے مجھے خطرہ ہے، اس لیے میں نے وہاں جانے کے لیے سیکیورٹی مانگی تھی، اگر سیکیورٹی نہیں دے سکتے تو میرا کیس وہاں شفٹ کردیں جہاں سیکیورٹی دی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وارنٹ صرف یہ تھے کہ مجھے پولیس اس عدالت میں پیش کرے جہاں میں سیکیورٹی رسک کی وجہ سے نہیں جارہا، گزشتہ شب صدر لاہور ہائی کورٹ بار نے یہ یقین دہانی کروادی کہ 18 مارچ کو میں عدالت میں پیش ہوں گا، اس کے بعد پولیس کو یہ یقین دہانی ہوجانی چاہیے تھی کہ میں 18 مارچ کو پیش ہوجاؤں گا لیکن ان کی نیت مجھ پر حملہ کرنے کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سب ایک منصوبے کے تحت ہو رہا ہے جس کا وعدہ نواز شریف سے کیا گیا ہے، مجھے جیل جانے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا، میرا بیگ بھی تیار تھا، مگر میرے کارکنان کو تشویش تھی کی یہ آپ کے ساتھ بھی وہی سب کریں گے جو انہوں نے پی ٹی آئی کے گرفتار رہنماؤں اور کارکنان کے ساتھ کیا۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ نیوٹرلز سے میرا سوال ہے کہ رینجرز کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی جو میرے گھر کی دیواریں پھلانگنے کی کوشش کر رہے تھے؟ میں نے ایسا کون سا جرم کردیا، جب رینجرز اور ہمارے کارکنان کا آمنا سامنا ہوگا تو کیا قوم یہ یقین کرے گی کہ اسٹیبلشمنٹ واقعی نیوٹرل ہے؟

انہوں نے کہا کہ اس وقت جو اقتدار میں بیٹھے ہیں ان کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ حالات کو اس جانب لے جارہے ہیں جہاں میرے ہاتھ سے بھی چیزیں نکل جائیں گی، باہر بیٹھے لڑکوں پر اب میرا کوئی کنٹرول نہیں رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ہمیں صرف عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے امید ہے، اس تماشے کو بند کریں اور ملک کا سوچیں، لندن پلان کو بند کریں۔

عمران نیازی گرفتار نہیں ہوتا تو قانون ہار جائے گا، احسن اقبال

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی واصلاحات وخصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان میں فیصلہ کن مرحلہ آگیا ہے، کیا آئین، قانون اور عدالت صرف کمزور کے لیے ہوں گی اور جس کے پاس جتھے ہوں گے وہ ان سے بالاتر ہوگا؟

مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ اگر عمران نیازی گرفتار نہیں ہوتا تو قانون ہار جائے گا اور فاشزم جیت جائے گا۔

ایک اور ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک نئے ہٹلر کا متحمل نہیں ہو سکتا، پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح ایک اناپرست شخص عمران نیازی نے نظام عدل کو یرغمال بنایا ہوا ہے عدالت کا حکم پامال کر رہا ہے،کارکنوں کو شیلڈ بنا کر اپنے گھر میں مورچہ زن ہے اور اپنے کارکنوں سے قومی اداروں کو گالیاں نکلوا رہا ہے۔

پی ٹی آئی رکن صوبائی اسمبلی کے خلاف مقدمہ درج

کراچی کے بنارس چوک پر پی ٹی آئی کے احتجاج کرنے پر رکن صوبائی اسمبلی سعید آفریدی کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

پی ٹی آئی رہنما سعید آفریدی سمیت پارٹی کے 8 کارکنان کے خلاف مقدمہ پیرآباد تھانے میں درج کیا گیا۔

مقدمے کے اندراج کے بعد سعید آفریدی نے ضمانت کے لیے سٹی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

اس موقع پر سعید آفریدی کا کہنا تھا کہ پولیس نے مقدمے میں جھوٹے الزامات ظاہر کیے ہیں، سندھ حکومت کی پولیس انتقامی کارروائیوں کے حوالے سے پہلے ہی مشہور ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جعلی مقدمات سے پی ٹی آئی ورکرز کے حوصلے پست نہیں ہوں گے، سندھ حکومت کے بنائے مقدمات کی حیثیت ردی کے کاغذ سے زیادہ نہیں ہے۔

نیا ماڈل ٹاؤن ہونے جارہا ہے، بابر اعوان

دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص یہ یقین دہانی کرائے کہ میں عدالت کی دی گئی تاریخ پر حاضر ہوجاؤں گا تو اس کے لیے جاری کردہ وارنٹ واپس آجائے گا۔

بابر اعوان نے کہا کہ میں ججز سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر تھوڑی دیر یہی صورتحال جاری رہی تو نیا ماڈل ٹاؤن ہونے جارہا ہے لیکن یہ کسی خواہش نہیں، ہم کسی قسم کا نقصان نہیں چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ عمران خان کو پنجاب میں انتخابی مہم چلانے سے روکا جائےان کی گرفتاری کا کوئی قانونی یا آئینی جواز نہیں ہے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے بابر اعوان نے کہا کہ اگر عمران خان 18 مارچ کو بھی پیش نہیں ہوتے تو ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی تھی۔

رات گئے ہونے والی پیش رفت

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب پولیس اور رینجرز ، اسلام آباد پولیس کی معاونت کررہے تھے تاہم پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے اپنے رہنما کی گرفتاری کو روکنے کے لیے مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے۔

لاہور میں رات ڈھلتے ہی پی ٹی آئی نے برتری حاصل کر لی تھی، نہ صرف اس نے شہر بھر میں مزید محاذ کھول دیے تھے بلکہ زمان پارک میں حامیوں کی بڑی تعداد کی آمد نے سیکیورٹی اہلکاروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔

آدھی رات تک 30 پولیس اہلکار زخمی ہوچکے تھے، جیو نیوز نے رپورٹ کیا کہ پی ٹی آئی کے کم از کم 15 افراد کو پولیس نے حراست میں بھی لیا گیا ہے۔

صوبائی دارالحکومت میں سیکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پنجاب کے عبوری وزیر اعلیٰ کی جانب سے رات گئے بلائے گئے اجلاس میں پی ٹی آئی کے سربراہ کو حراست میں لینے اور صبح سے پہلے آپریشن کو سمیٹنے کی ایک اور کوشش کا فیصلہ کیا گیا۔

منصوبے پر عملدرآمد کے لیے پولیس اور رینجرز کی تازہ یونٹوں نے رات دیر گئے دی مال پر پوزیشنیں سنبھال لیں اور کچھ ہی دیر میں ریسکیو 1122 کی گاڑیوں کے ساتھ جیل کی چند وینیں بھی آئیں۔

اس ضمن میں پنجاب پولیس کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ رات گئے شہر میں یہ تاثر تھا کہ دن کے وقت پولیس نے بہت نرمی کا مظاہرہ کر کے ’غلطی‘ کی جس سے پورے آپریشن پر اثر پڑا چنانچہ اگلی کوشش ٹھوس اور مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

خیال تھا کہ رات گئے قانون نافذ کرنے والے ادارے عمران خان کی گرفتاری میں رکاوٹ کو توڑنے کی کوشش کریں گے تاہم صبح تک ایسی کوئی مزید کارروائی نہیں کی گئی۔

اسی سلسلے میں پنجاب پولیس کے سربراہ عثمان انور نے انتباہی گولی چلائی اور کہا کہ پی ٹی آئی کارکنوں کو پولیس دستے کو نشانہ بنانے پر اکسانے والوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے مقدمے بنائے جائیں گے۔

انہوں نے کہا تھا کہ پولیس صرف عدالتی احکامات پر عمل کر رہی تھی اور کچھ نہیں. لیکن اپنے کارکنوں کو پولیس ٹیم پر حملہ کرنے کے لیے اکسانے والوں کو اپنے جرم کی شدت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، قانون کے مطابق یہ فعل دہشت گردی جیسا ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ پولیس اب ان لوگوں کا پیچھا کرے گی جو ریاستی اداروں کے خلاف تشدد کو ہوا دے رہے ہیں اور وہ جو اس پر عمل کررہے ہیں۔

رات گئے ایک ٹوئٹ میں پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے یقین دہانی کرائی ہے کہ عمران خان 18 تاریخ کو عدالت میں پیش ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 76 کے تحت دستخط کیے گئے معاہدے کی روشنی میں، پولیس آپریشن کا ’کوئی جواز‘ نہیں تھا۔

جیل جانے کے لیے تیار ہوں، عمران خان

دوسری جانب آدھی رات کو بی بی سی اردو کے ساتھ ایک انٹرویو میں عمران خان نے انہیں گرفتار کرنے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ گرفتاری کے لیے تیار ہیں اور یہ کہ ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نواز شریف سے کیے گئے مبینہ وعدے پورے کیے جا رہے ہیں۔

سابق وزیر اعظم کے مطابق انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ اسٹیبلشمنٹ اور آرمی چیف، ’پی ڈی ایم حکومت کی پشت پناہی‘ کیوں کر رہے ہیں حالانکہ یہ ریاستی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے بغیر ایک دن بھی نہیں چلے گی، فوج کے موجودہ اعلیٰ افسران سے رابطے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی تاہم بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ وہ جیل جانے کے لیے تیار ہیں اور پارتی سرگرمیوں کی انجام دہی کے لیے انہوں نے پی ٹی آئی رہنماؤں کی ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

زمان پارک پر آپریشن

واضح رہے کہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے پیر کو توشہ خانہ ریفرنس میں مسلسل عدم حاضری پر پی ٹی آئی سربراہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

عدالت نے پولیس کو سابق وزیراعظم کو گرفتار کرکے 18 مارچ تک عدالت میں پیش کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔

عدالت کی جانب سے جاری کردہ ’وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد‘ کے لیے آپریشن منگل کی دوپہر کو شروع ہوا تھا جب پولیس اہلکار بکتر بند گاڑی میں عمران خان کی رہائش گاہ کی جانب روانہ ہوئے۔

اسلام آباد کے ڈی آئی جی شہزاد ندیم بخاری کی قیادت میں پولیس نے مزاحمت کرنے والے پارٹی حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا، تاہم پی ٹی آئی کارکنوں نے پتھراؤ کیا۔

پولیس ٹیم آپریشن مکمل کرنے کے لیے پرعزم تھی، بعد ازاں زخمی ہونے والے ڈی آئی جی بخاری نے واضح الفاظ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے آئے ہیں اور آج انہیں ہر قیمت پر گرفتار کیا جائے گا۔

پی ٹی آئی رضاکارانہ گرفتاری کے امکان کی پیشکش کر کے آپریشن کے پہلے مرحلے سے بچ گئی تھی لیکن یہ ایک تاخیری حربہ تھا کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے حامیوں کا ہجوم بڑھتا ہی گیا۔

عمران خان کو حراست میں لینے کی ایک اور کوشش میں ڈی آئی جی بخاری اور ان کے چار ماتحت زخمی ہوئے اور سروسز ہسپتال جا پہنچے، تاہم اسلام آباد کے ایس پی سٹی رانا طاہر نے پولیس ٹیم کا چارج سنبھالنے کے ساتھ آپریشن جاری رکھا۔