پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا توشہ خانہ کے آڈٹ کا حکم
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اعلیٰ عہدیداروں کے غیر ملکی حکومتوں کی جانب سے دیے گئے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے اپنے پاس رکھنے سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصانات کا تعین کرنے کے لیے توشہ خانہ کے آڈٹ کا حکم دے دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے کہا کہ ’ہم حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تحائف رکھنے والے دولت مند معزز شخصیات یعنی سیاست دانوں، ججوں اور جرنیلوں سے سو فیصد ادائیگی کی وصولی کرے‘۔
ساتھ ہی نور عالم خان نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کے دفتر کو آڈٹ کے نتائج عام کرنے کی ہدایت کی۔
اے جی پی کے دفتر نے جواب دیا کہ ایک ٹیم پہلے ہی تشکیل دے دی گئی ہے اور توشہ خانہ کا آڈٹ بدھ سے شروع ہوگا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس وزارت بحری امور کے آڈٹ پیراز برائے سال 22-2021 کا جائزہ لینے کے لیے منعقد ہوا۔
پی اے سی نے کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی)، کراچی ڈاک لیبر بورڈ اور پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے آڈٹ پیراز میں اربوں روپے کی بے ضابطگیاں پائیں۔
کچھ انتہائی سنگین خلاف ورزیوں میں ٹریفک اور فنانس ڈپارٹمنٹ کی 45 ارب روپے کی غیر تصدیق شدہ ریونیو وصولی بھی شامل ہے۔
اے جی پی نے کہا کہ کے پی ٹی کے پاس تمام کنٹینرز اور نان کنٹینرائزڈ کارگو کا تفصیلی اور مناسب ریکارڈ برقرار رکھنے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔
اسی طرح آڈٹ نے اتھارٹی کو مسلسل نقصان کے باوجود کے پی ٹی افسران/ اہلکاروں کو 6 ارب 20 کروڑ روپے کے بونس کی غیر منصفانہ ادائیگی کی نشاندہی بھی کی۔
آڈٹ پیرا میں کہا گیا کہ ’کے پی ٹی نے گزشتہ برسوں سے عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر بونس کی مد میں 6 ارب 20 کروڑ روپے کی رقم ادا کی ہے‘۔
پی اے سی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے وزارت بحری امور کے سیکریٹری سید محمد طارق ہدیٰ کو ہدایت کی کہ وہ 4 ہزار سے زائد ملازمین کو چار بنیادی تنخواہوں کے برابر بونس کی ادائیگی فی الفور روک دیں اور منافع کی بنیاد پر سال میں ایک بار الاؤنسز تک محدود رہیں۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ کے پی ٹی کے ریونیو میں گزشتہ برسوں کے دوران مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔
کمیٹی کو کے پی ٹی کے تحت بندرگاہ کے علاقے سے باہر املاک سے 4 ارب 10 کروڑ روپے کے بقایا کرائے کی وصولی میں ناکامی، 3 ارب 60 کروڑ روپے کے اخراجات میں تضاد، کے پی ٹی کی اراضی پر غیر قانونی قبضے اور آئل کمپنیوں کے 3 ارب 20 کروڑ روپے کے بقایا جات سمیت کچھ دیگر مبینہ بے ضابطگیوں سے آگاہ کیا گیا۔